رمضان المبارک سے قبل ہی مہنگائی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔مسلمان اس ماہ مقدس میں حکومت کی جانب سے ریلیف کے منتظر رہتے ہیں۔ماضی میں یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت کے بہتر اقدامات کے دعوے رمضان المبارک آنے سے قبل زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ صوبے میں پنجاب کابینہ کا ابتدائی مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور سب سے پہلے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے مہنگائی کنٹرول کرنے پر کمر کس لی ہے انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں اس بات کو تسلیم کیا کہ اس سے قبل صوبہ میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کوئی واضح میکنیزم موجود نہیں ،ماضی میں پنجاب پرائس کنٹرول کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی مرتب نہیں کرسکا اگر پنجاب کا یہ حال ہے تو باقی صوبوں کا کیا حال ہوگا مگر اب ایسا نہیں ہوگا مہنگائی،ذخیرہ اندوزی پر کوئی معافی نہیں ہوگی کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا سب کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوگا۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پریس بریفنگ میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کے سوا تین کروڑ لوگوں کو ان کا حق دہلیز پر ملنے جا رہا ہے۔ ہم مستحقین کو رمضان پیکیج دینے جارہے ہیں ، اس پیکیج کا نام ہم نے رمضان نگہبان رکھا ہے، لوگ روزے میں ہوتے ہیں اور قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، غریب کا حق تکلیف اٹھائے بغیر گھر کی دہلیز تک پہنچائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میری اور نوازشریف کی خواہش پر ٹیم نے بہت زبردست ایکسرسائز کی، اس سارے عمل میں پنجاب گورنمنٹ،پولیس اور متعلقہ محکموں کے لوگ شامل ہیں، لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے گورنمنٹ کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہوتا، ہم نے بی آئی ایس پی اور نادرا کی مدد سے سارا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے، ڈویژن اور ڈسٹرکٹ کی بنیاد پر مستحق لوگوں کو تلاش کیا ،شہبازشریف صاحب نے بھی گزشتہ رمضان میں لوگوں کو مفت آٹا دیا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آنے والے تین سے چار ماہ میں ساڑھے 12کروڑ عوام کا سروے کریں گے، جس کی 60ہزار سے کم تنخواہ ہے سب کو ڈیٹا میں لیکر آئیں گے، ایک سسٹم میں آپ کے پاس آپ کا ڈیٹا آ جائے گا، آنے والی حکومتوں کیلئے ڈیٹا کے ذریعے آسانی پیدا ہوجائے گی۔ اس وقت رمضان نگہبان پیکیج کی پیکنگ اور ڈلیوری کا عمل جاری ہے، ابھی تک 80 ہزار کے قریب ڈلیوری کرچکے ہیں۔ ایک بیگ میں 10کلو آٹا ،2کلو چینی،2کلو گھی اور 2کلو چاول ہیں، ہم نے گھی، چاول، آٹا، بیسن اور چاول کی بہترین کوالٹی رکھی ہے، ہم نے رمضان نگہبان پیکیج کے ڈیلیوری سسٹم کو ڈیجیٹائز کردیا ہے۔بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ مریم نواز جس طرح میدان عمل میں مصروف ہیں وہ واقعی پنجاب کی عوام کو بہتر سہولیات کے لیے میدان میں نکلی ہیں یہ کام تنہا مریم نواز نہیں کرسکتیں اور نہ ہی اسے ہر جگہ مانیٹر کا جا سکتا ہے یہ کام ان کی ٹیم کا ہے ٹیم ورک سے ہی نتیجے بہتر آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
اب پنجاب کی ابتدائی کابینہ مکمل ہوگئی ہے اور کابینہ کے اراکین نے باقاعدہ حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے گورنر ہاو¿س میں صوبائی کابینہ کے اٹھارہ وزراءسے حلف بھی لے لیا ہے۔تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سمیت دیگر بھی شریک تھے۔پنجاب کابینہ میں مریم اورنگزیب کو سینئر صوبائی وزیر ، ان کے پاس پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، انوائرمنٹ اور محکمہ جنگلات ، عظمیٰ بخاری انفارمیشن اینڈ کلچر کی وزیر ، عاشق حسین کرمانی کو محکمہ زراعت کی وزارت، کاظم پیرزادہ محکمہ آبپاشی ، رانا سکندر حیات کو پرائمری ایجوکیشن کی وزارت،چودھری شافع حسین کو محکمہ انڈسٹری ،صوبائی کابینہ میں پہلی بار سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رمیش سنگھ اروڑہ کو وزیر مینارٹی ،خلیل طاہر سندھو ہیومن رائٹس ، شیر علی گورچانی کو مائنز اینڈ منرلز،خواجہ سلمان رفیق کو محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ ، خواجہ عمران نذیر کو محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ،ذیشان رفیق کو محکمہ بلدیات اور صہیب احمد کو محکمہ مواصلات کی وزارت،فیصل ایوب کو محکمہ سپورٹس ،بلال یاسین کو محکمہ خوراک ،مجتبی شجاع الرحمن کو محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی وزارت دی گئی ہے۔
پنجاب کی عوام کو گڈ گورننس کی اشد ضرورت ہے جس کا وہ انتظار کافی مدت سے کررہے ہیں۔پنجاب کی عوام کی خوشی حالی کا جو ویژن وزیرا علیٰ پنجاب مریم نواز دیکھ رہی ہیں اس کی تکمیل کے لیے پنجاب کابینہ کو دن رات کام کرنا ہوگا کیونکہ جس منشور کے تحت پنجاب کی عوام نے بھاری ذمہ داری مسلم لیگ ن کو دی ہے اب اس کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔پنجاب کی ترقی کا پہیہ تیز چلانا ہے یا سست روی سے چلانا ہے اس کا فیصلہ مریم نواز کی ٹیم نے کرنا ہے، اگر عوام نے حکومتی پالیسیوں پر اطمینان کا اظہار کیا تو مریم نواز کا ویڑن کامیاب ہو جائے گا اگر عدم اعتماد کیا گیا تو اس کے نتائج بھی مسلم لیگ ن اور ان کے فیصلہ سازوں کو بھگتنا ہونگے اس لئے مسلم لیگ کی لیڈرشپ کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ ڈیلیور کئے بغیر کوئی گزارہ نہیں ہوسکتا۔بہت سارے سیاسی بصیرت رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ کو وفاق اور صوبوں کے انتظامات چلانے کا باقی سیاسی جماعتوں سے زیادہ تجربہ ہے اس لیے وہ اس بار زیادہ بہتر نتائج دینے کی پوزیشن میں ہیں،تو رمضان المبارک کا مہینہ ہی نئی کابینہ کے لیے ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا اب اس میں مریم نواز کس طرح کامیاب ہوتی ہیں تو اس کا فیصلہ اسی ماہ مبارک میں ہو جائے گا عوام تو ریاست سے بہتری اور ریلیف کی امید لگائے بیٹھیں ہیں یہ حکومت اور اس سے جڑی سرکاری مشینری پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح کی محنت کرتے ہیں۔