”پتھر پر لکیر“ کے تحت ہونیوالے حالیہ عام انتخابات کے نتیجے میں قائم نئی قومی اسمبلی آگے چل کر عوام کی توقعات پر کہاں تک پورا اترتی ہے‘ ملکی قرضوں سے چھٹکارا اور ایک عام مزدور محنت کش اور سفید پوش کی خوشحالی کیلئے کون سے غیرمعمولی اقدامات کریگی‘ یہ اب آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم ووٹ رِگنگ کے مبینہ معاملہ پر یورپی اور عالمی مبصرین آج بھی پاکستان کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات دھر رہے ہیں۔ آپ اسے جمہوری عمل کا نام دیں یا جمہوریت کا ”فٹافٹ نفاذ“ کہ اعلیٰ ملکی عدالتوں اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے مطابق جیتنے والے امیدوار چیت چکے۔ ہارنے والے ہار گئے‘ مگر کچھ امیدوار ایسے بھی ہیں جو اپنی ہار کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جمہوریت میں ہار جیت بلاشبہ لازم و ملزوم ہے مگر ہار یا جیت شکوک و شبہات کی نذر ہو جائے تو سمجھ لیں انتخابی اور جمہوری عمل کہیں نہ کہیں ڈی ریلڈ ضرور ہوا ہے۔ کمزور جمہوریت میں یہی وہ منفی طرز عمل ہے جہاں سے ہارس ٹریڈنگ جنم لیتی ہے اور بدقسمتی سے یہی طریقہ کار ہمارے ہاں گزشتہ 76 برس سے رائج ہے۔
پنجاب اور قومی اسمبلی میں دوران حلف وفاداری اور اگلے روز جو کچھ سوشل میڈیا اور غیرملکی میڈیا پر دیکھنے اور سننے کو ملا‘ مہذب اور خوددار قوموں کا بلاشبہ وہ شیوہ نہیں۔ پاکستان کی اس 16ویں منتخب قومی اسمبلی کے کولیشن ارکان نے پہلے روز ہی جب اپنی اپنی پارٹیوں کے لیڈروں کے بارے میں مخصوص نعرے بازی کا سہارا لیا تو مناظر سے یہ بات صاف عیاں ہو گئی کہ حکومت سازی کے فوری بعد ملک کی پارلیمنٹ کو مزید کن سیاسی کٹھنائیوں سے دوچار ہونا پڑیگا؟
بین الاقوامی جمہوریت کا یہ اصول ہے کہ قومی سیاسی امور کے دفاع اور مقاصد کے حصول کیلئے ایوان میں نمائندے اپنی مثبت آزادانہ رائے کا کھل کر بے خوف و خطر اظہار کریں مگر ملک و قوم کے مفادات پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ اسمبلیوں اور ایوانوں میں سیاسی اختلافِ رائے کی ہر وقت گنجائش موجود رہتی ہے جس میں باہمی احترام اور قوت برداشت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے مگر افسوس! ہماری جمہوریت اور سیاست میں یہ اوصاف تاہنوز پیدا نہیں ہو سکے۔ دکھ تو اس بات پر ہے کہ جمہوریت کا یہ رول ماڈل جن سے حاصل کیا گیا اور جس کا رونا میں اکثر و بیشتر ان کالموں میں روتا ہوں‘ ان سے بھی عملی طور پر کچھ سیکھ نہیں سکے۔
پارٹیوں کے مابینTalk Hard یہاں ہاﺅس آف کامن اور ہاﺅس آف لارڈز میں بھی اکثر و بیشتر عروج پر رہتی ہے۔ نعرے بازی یہاں بھی ہوتی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ ایک دوسرے پر طنزیہ تیر یہاں بھی چلاتے ہیں مگر ایک دوسرے کی عزت و احترام اور ایوان کے وقار کو کسی حال میں بھی متاثر نہیں ہونے دیتے اور یہی برطانوی جمہوریت کا وہ حسن ہے جس نے برطانیہ کو ”جمہوریت کی ماں“ کے اعزاز سے نواز رکھا ہے۔
اپنی جمہوریت اور سیاست کا الگ ہی انداز ہے۔ اسمبلیوں میں پہنچتے ہی وہ عوامی نمائندے جنہوں نے ”ترلے منتیں“ اور اپنے عوامی خادم ہونے کا یقین دلا کر سادہ لوح ووٹروں سے ووٹ مانگے ہوتے ہیں، کامیاب ہوتے ہی وہ انکی گلیوں اور محلوں کا راستہ بھول جاتے ہیں۔ اب اندازہ آپ خود لگا لیں کہ جس ملک کی 9 کروڑ آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہو‘ جہاں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر پڑھا لکھا طبقہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو‘ جہاں غریب مزدور کو سہانے خواب دکھا کر اسکی غربت کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا ہو‘ وہاں دو سو اور تین سو یونٹ مفت بجلی دینے کا وعدہ کیسے پورا کیا جا سکتا ہے۔
اسمبلیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ یہ نمائندے عوام سے کئے وعدے کیسے نبھا پائیں گے۔ یہ ایک انتہائی مشکل سوال ہے کہ ایوانوں میں جاری سیاسی تناﺅ کم ہونے کے قطعی آثار نظر نہیں آرہے۔ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ 265 کے ایوان میں اکثریت اس مرتبہ پی ایچ ڈی‘ ماسٹرز‘ بیلچرز اور فیکلٹی نمائندوں کی ہے جن سے کم از کم یہ توقع ضرور کی جا سکتی ہے کہ اپنی تعلیم‘ قابلیت اور غیرمعمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ماضی کی اسمبلی کے طور طریقوں میں واضح تبدیلی لائیں گے اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا Decorm قطعی متاثر نہیں ہونے دینگے۔
جہاں تک ملک کی مجموعی معاشی اور اقتصادی صورتحال کا معاملہ ہے‘ تو میرے منہ میں خاک‘ مگر اس بات کو جو میری ”پرسیپشن“ بھی ہو سکتی ہے‘ ”ک±ٹ کے گنڈھ“ مارلیں کہ اس نئی حکومت کیلئے معاشی چیلنجز اس قدر سنگین ہونگے کہ قوم بین الاقوامی مالیاتی اداروں‘ آئی ایم ایف اور دیگر قرضہ دینے والے عالمی بنکوں کی محتاج بن کر رہ جائیگی۔ عوام کو یہ بات ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگی کہ موجودہ حکومت ایک مخلوط حکومت ہے جس کے کئے ملکی اور قومی فیصلوں میں کولیشن پارٹنرز کی رائے اور تجاویز مقدم ہونگی جبکہ ماضی کے مقابلے میں حزب اختلاف کا کردار اس مرتبہ کہیں جارحانہ ہوگا تاہم حکومت پنجاب اور بالخصوص وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز کو اپوزیشن کی جانب سے ٹف ٹائم دینے کی پالیسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب ملک میں معاشی استحکام کیلئے اگلے چھ ماہ اس لئے بھی مزید سخت ہونگے کہ آئی ایم ایف سے حاصل کئے گئے پہلے قرضوں کی ادائیگی اور نئی کولیشن حکومت کی مبینہ طور پر مزید آٹھ ارب ڈالرز کے قرضے کیلئے درخواست اس امر کا ثبوت ہے کہ ملکی مالی بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت کو آنیوالے دنوں میں مزید قرضے حاصل کرنا ہونگے اور کولیشن حکومت کا یہی بڑا مگر سنگین معاشی چیلنج ہوگا۔