جمہوریت کی گاڑی؟ 

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے مراحل پایہ تکمیل کو پہنچ گئے۔ میاں شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ برادر اکبر سے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے ریکارڈ اور دوڑسے بس ایک قدم پیچھے رہ گئے ہیں۔ پنجاب میں مریم نواز، کے پی کے میں علی امین گنڈا پور، سندھ میں مراد علی شاہ اور بلوچستان میں سرفراز بگٹی وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں۔ سرفراز بگتی ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں۔ وہ نگران وزیر داخلہ بھی رہے۔یہ سب اپنی اپنی اسمبلی کی جانب سے چنے گئے ہیں۔
عمران خان کے خلاف 10اپریل 2022ءکو تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی ایم کیو آدھی ق لیگ اور کئی دیگر جماعتوں کی جانب سے شہباز شریف کو وزیر اعظم چنا گیا تھا۔ تحریک انصاف کو عدم اعتماد کی رنجش تھی، نئی حکومت کے وجود میں آنے پر اس کے اشتعال میں اضافہ ہوگیا۔ غصے میں یہ لوگ پاگل ہوئے جا رہے تھے۔اپنا گریبان چاک اور سر پیٹنے لگے۔ایسی کیفیت میں کئے گئے فیصلے کتنے پائیدار ہوتے ہیں؟
قومی اسمبلی سے استعفے، پنجاب اور کے پی اسمبلی توڑ دی گئی۔ سیاست میں پہلے ایسی شدت نہیں دیکھی گئی۔یہ دو طرفہ تھی، 9مئی سے پہلے25مئی ہوا۔ اس روز لگا ملک جلادوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اگلے سال 9مئی کو جو کچھ دفاعی تنصیبات کے ساتھ ہوا۔لگا یہ تنصیبات دشمن کی سپاہ کے ہتھے چڑھ گئی ہیں۔ اب تک یقین نہیں ہوسکا کہ اس”سپاہ“ کی کمانڈ کون کر رہا تھا۔ انکار صریحاً انکار ہو رہاہے۔مگر کوئی تو ہے؟
10اپریل2022ءکی ٹرانزیشن آف پاور کے ڈیڑھ سال بعد الیکشن ہوئے۔ حکومت سازی کے مراحل مکمل ہوئے۔ کیا جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر گامزن اور رواں دواں ہوگئی؟۔ کوئی کہتا ہے جمہوریت کی کشتی بھنور میں پھنس رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے جمہوریت کی گاڑی دلدل میں دھنس رہی ہے اور کوئی کہتا ہے جمہوریت کی گاڑی گارے اورکھوبے میں پھنس گئی۔ دلدل اور بھنور سے نکلنا آسان نہیں ناممکن کی حد تک مشکل ہوتا ہے۔ کھوبے سے تھوڑی سی مشکل سے نکلاجا سکتا ہے۔ اب سارا انحصار عمران خان پر ہے۔ کیا وہ وسیع القلبی دکھائیں گے۔جو ہوگیا سوگیا کہہ کر فارم 47 پر آمنّا و صدّقنا کہہ دیں گے؟ الیکشن کمیشن کی طرف سے کل 26 دن کے بعد فارم 45 اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ہیں جو 14 روز میں جاری ہونے تھے۔ اس سے 47 اور 45 کے تنازعات کم ہونےکے امکانات نظر نہیں آرہے۔جھوٹ اور سچ کا مقابلہ جاری ہے۔سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے کیسے تعین ہو سکے گا؟
اگر عمران خان یہ کہہ دیں کہ جو ہوا سو ہوا اب آگے بڑھتے ہیں تو جمہوریت اور سیاست کی گاڑی گارے سے نکل کر فراٹے بھرتی نظر آئے گی۔ میاں نواز شریف کیا ایسا کرتے آئے ہیں؟
نوّے کی دہائی میں بلکہ اس سے بھی قبل میاں صاحب نے بےنظیر بھٹو کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔وہ88ء میں وزیر اعظم بنیں۔ میاں صاحب اس سے قبل پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ پیپلز پارٹی میں پرانے سیانے موجود ہیں۔ ان سے معلوم کریں۔پنجاب میں قومی اسمبلی کی سیٹوں کے تناسب سے پیپلز پارٹی کو صوبائی نشستیں کیوں نہ مل سکیں؟۔ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قومی اسمبلی کے انتخابات کے تین دن بعد ہوئے تھے۔ 
بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی۔ وہ ناکام ہوئی تو صدر ا سحق خان نے58ٹوبی کی تلوار سے اسمبلیاں اور حکومت کاٹ کے رکھ دی۔ تحریک عدم اعتماد کے روح رواں وزیر اعلیٰ پنجاب اور حکومت توڑنے میں صدر اسحق اورجنرل اسلم بیگ کے صلاح کار تھے۔ایم کیو ایم 18 بیس سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی۔ پھر ایسا شف شف ہوا کہ عدم اعتماد کی تحریک میں اس نے پیپلز پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔
96ء میں پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت میاں نواز شریف کے ایماپر چلتی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کا گھیراو¿ میاں نواز شریف کے گرد اکٹھی ہونے والی پارٹیاں اسی طرح کرتی رہیں۔ جس طرح آج عمران خان کی تحریک انصاف کا ہو رہا ہے۔
میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کبھی چلنے دیا تھا؟ ہاں ایک مرتبہ ایسا ہوا۔2008ءمیں پیپلز پارٹی کی بننے والی حکومت کو۔۔۔۔-یہ الیکشن پی پی اور مسلم لیگ نے مل کر غیر اعلانیہ اتحاد بنا کر لڑے تھے۔ مقابلے میں مشرف کی ق لیگ تھی۔ بے نظیربھٹو جلسوں میں کہا کرتی تھیں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔ اگر ہمیں ووٹ نہیں دینا تو مسلم لیگ ن کو دیں۔ یہ میثاق جمہوریت کے بعد کی باتیں ہیں۔ ان انتخابات کے بعد پنجاب میں پی پی پی مسلم لیگ نون کے ساتھ حکومت میں شامل تھی اور مرکز میں ن لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ کچھ عرصہ کے لیے حکومت کا حصہ بنی تھی۔ وہ دن بھی آئے کہ میاں صاحب کی سربراہی میں کراچی تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے لیے یومِ نجات منایا گیا تھا۔ 
عمران خان 180سیٹیں جیتنے کے دعویدار ہیں۔ ان کے بقول انہیں 93تک محدود کر دیا گیا۔ پہلے بلے کا نشان واپس لے کر بے پارٹی کیا گیا۔ اسی بنا پر ان کو خصوصی نشستوں سے بھی محروم رہنا پڑا۔ان کی سیٹیں ونڈی کی چیز کی طرح دیگر پارٹیوں میں تقسیم کر دی گئیں کیونکہ جمہوریت حسین ہوتی ہے اور یہ جمہوریت کا بہترین حسن ٹھہرا۔
عمران خان سے کیاقومی مفاد میں تعاون کی امید رکھی جا سکتی ہے۔"چلیں جوا ہوا سو ہوا۔ اب آگے بڑھتے ہیں"۔ ممکن ہے مگریقین نہیں۔اگر وہ تعاون نہیں کرتے ،سر پھری باتیں کرتے ہیں سر کشی پر اترے رہتے ہیں تو معاشی و سیاسی استحکام کے امکانات معدوم رہیںگے۔ سمجھ لیں گاڑی دلدل اور کشتی بھنور کی گھمن گھیری میں آگئی ہے۔ عمران خان کی احتجاجی سیاست کا ایک توڑ تو یہ ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی سیاست کا افہام و تفہیم والا وہ راستہ اختیار کر لیں جو ان کی بھتیجی مریم نواز نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی اختیار کیا ہے۔ مریم نواز نے سیاسی بیانات والی پوائینٹ سکورنگ کا راستہ اب ترک کر دیا ہے اور وہ ساری توجہ حکومتی گورننس پر مرکوز کیئے ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن