جامعہ پنجاب کا کتاب میلہ


آج (جمعرات) سے جامعہ پنجاب میں تین روزہ کتاب میلہ شروع ہورہا ہے جو ہفتے کی شام تک جاری رہے گا۔ یونیورسٹی میں کتاب میلے کی روایت تو بہت پرانی ہے لیکن چند ناگزیر وجوہ کی بنا پر کئی سال یہ میلہ منعقد نہیں کروایا گیا۔ اس روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا رئیس جامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کے سر ہے اور کتاب میلے کی تجویز سے لے کر اس کے انعقاد تک انھوں نے جس محنت اور لگن سے کام کیا وہ واقعی لائقِ تعریف ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اس کتاب میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ قومی اور بین الاقوامی ناشرین اور کتب فروش شرکت کررہے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ کتاب میلے کے موقع پر شائقینِ کتب خصوصی رعایت دیں۔ اس سلسلے میں ناشرین اور کتب فروشوں کے لیے سہولت پیدا کرنے کی خاطر یونیورسٹی ان سے سٹال لگانے کا نہایت کم معاوضہ لے رہی ہے۔
گزشتہ ماہ بھی لاہور میں پانچ روز کے لیے ایک بڑے کتاب میلے کا انعقاد ہوا ۔ لاہور بین الاقوامی کتاب میلے میں بھی بہت سے ناشرین اور کتب فروشوں نے شرکت کی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جوہر ٹاو¿ن میں واقع ایکسپو سنٹر میں منعقد ہونے والے اس میلے میں کئی ناشر اور کتب فروش اس لیے شرکت نہیں کر پائے کیونکہ وہاں سٹال لگانے کے لیے جو معاوضہ لیا جارہا تھا وہ بہت زیادہ تھا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پروگراموں کا انعقاد کرنے والوں کو خصوصی رعایت دے تاکہ معاشرے میں مطالعے اور کتب بینی کو فروغ ملے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ جو ناشر اور کتب فروش بوجوہ لاہور بین الاقوامی کتاب میلے میں شریک نہیں ہوسکے تھے وہ جامعہ پنجاب کے کتاب میلے میں شرکت کررہے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کتاب دوستوں کو پچھلے کتاب میلے میں جس کمی کا احساس ہوا اسے یونیورسٹی کی طرف سے پورا کیا جارہا ہے۔
اسی سے یاد آیا کہ لاہور میں بہت سے عوامی کتب خانے (پبلک لائبریریز) موجود ہیں جو حکومتی توجہ کے مستحق بھی ہیں اور منتظر بھی۔ ان میں سب سے اہم کتب خانہ پنجاب پبلک لائبریری ہے جسے قائم ہوئے رواں برس ایک سو چالیس سال مکمل ہوگئے ہیں۔ 8 نومبر 1884ءکو قائم ہونے والی یہ لائبریری ایک وقت تک جنوبی ایشیاءکا سب سے بڑا عوامی کتب خانہ تھی اور اس میں موجود لاکھوں کتابوں اور رسائل کا ذخیرہ آج بھی اس خطے کے بڑے اور اہم ذخائر میں شمار ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایک لمبے عرصے سے پنجاب حکومت کی طرف سے اس کتب خانے پر اس طرح توجہ نہیں دی جارہی جیسے کہ اس کا حق ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ پہلے (1968ءمیں) اس لائبریری میں قائم کیا جانے والا بیت القرآن نصف اپنی نوعیت کا ایک اہم سیکشن ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ حکومت کی عدم توجہی کے باعث اس لائبریری میں مطالعے اور تحقیق کے لیے آنے والوں کی تعداد پہلے کی نسبت بہت کم ہوچکی ہے۔ 
باقی دنیا میں کتاب کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ یورپ اور امریکا میں آج بھی کئی کتابوں کے لاکھوں نسخے شائع ہوتے ہیں اور عوام صرف انھیں گھروں میں سجانے کے لیے نہیں بلکہ ان سے استفادہ کرنے کے لیے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر جوزف بائیڈن جب اپنی ہفتہ وار چھٹی منانے کے لیے قصرِ سفید (وائٹ ہاو¿س) سے کیمپ ڈیوڈ کی طرف گئے تو انھوں نے اپنے ہاتھ میں ولیم یوری (William Ury) کی کتاب Possible: How We Survive (and Thrive) in an Age of Conflict پکڑی ہوئی تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مطالعے کو اپنی چھٹی منانے کا اہم وسیلہ سمجھا۔ قبل ازیں، سابق امریکی صدر براک اوباما بھی سوشل میڈیا پر ان کتابوں کی فہرست شیئر کرچکے ہیں جو انھوں نے گزشتہ موسمِ گرما کے دوران پڑھی تھیں۔
خیر، بات ہورہی تھی جامعہ پنجاب کے کتاب میلے کی جس کے انعقاد کے لیے دن رات محنت کر کے یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کردی ہے۔ اب یہ لاہور میں مقیم کتاب دوستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کتاب میلے میں شرکت کر کے اسے کامیاب بنائیں۔ یہ سکولوں، کالجوں اور یورنیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ بڑی تعداد میں ناشرین اور کتب فروش ایک ہی جگہ اکٹھے ہورہے ہیں، لہٰذا انھیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مزید یہ کہ بچوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی یہ ایک اہم تقریب ہے اور ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نہ صرف اس کتاب میلے میں شرکت کریں بلکہ انھیں ترغیب دیں کہ وہ وہاں سے کچھ کتابیں بھی ضرور خریدیں۔ اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ 7 سے 9 مارچ تک منعقد ہونے والا یہ کتاب صبح 9سے رات 8 بجے تک چلتا رہے گا۔
نوٹ: پچھلے کالم میں ’غیظ و غضب‘ کو غلطی سے ’غیض و غضب‘ لکھ دیا گیا تھا۔ بی بی سی اردو سے ربع صدی سے زائد عرصے تک وابستہ رہنے والے نامور صحافی اور اب جامعہ پنجاب میں شعبہ¿ صحافت کے استاد شاہد ملک صاحب نے اس طرف توجہ دلائی جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔

ای پیپر دی نیشن