ماہِ مقدس کا آغاز اور تکریمِ انسانیت

اہلِ اسلام کیلئے رحمتوں‘ فضیلتوں‘ بخششوں والے مقدس مہینے رمضان کریم کا آغاز ہونے میں بس اب چار پانچ روز کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے۔ ہمارے فلکیاتی ماہرین کی پیشین گوئیاں پورے ملک میں ہی نہیں، عرب ریاستوں می بھی اس بار ایک ہی دن یعنی 11 مارچ کو ماہ رمضان کا چاند نظر آنے کا واضح عندیہ دے رہی ہیں۔ اس طرح ممکنہ طور پر پاکستان اور عرب ریاستوں میں 12 مارچ کو پہلا روزہ ہوگا اس لئے قوم خاطرجمع رکھے کہ ماہِ رمضان المبارک کے دوران تاجروں‘ دکانداروں‘ خوانچہ فروشوں کا اس ماہِ مقدس کو اپنے مالی اور اقتصادی استحکام کیلئے ماضی کی طرح منفعت بخش نہ بنانے‘ گھٹیا مال اور گلے سڑے پھل فروٹ فروخت نہ کرنے‘ اشیاءکی مصنوعی قلت پیدا کرکے ناجائز منافع نہ کمانے اور اپنی دیانت داری کا ڈھنڈورہ پیٹنے کیلئے اللہ‘ رسولﷺ کی قسمیں اٹھانے پر چاہے اتفاق ہو نہ ہو‘ ہم 12 مارچ کو رمضان کریم کا آغاز کرنے پر ضرور متفق ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اور د±ور کے چندا ماموں کی ہمارے دوربین شاہکاروں کو 11 مارچ کی شام اپنی جھلک دکھانے کی گنجائش مضبوط نظر آرہی ہے۔ جس کے بارے میں سوشل میڈیا پر رونق لگی ہوئی ہے کہ اس بابرکت مہینے کا آغاز ہونے والا ہے جس کے دوران خوانچہ فروش گلے سڑے پھل فروٹ اور ناقص سبزی اپنے گاہکوں کو من مانے نرخوں پر فروخت کرکے جلدی سے مسجد کی جانب بھاگیں گے کہ کہیں وہ باجماعت نماز کی ادائیگی سے محروم نہ ہو جائیں۔ ہماری پنجاب کی پہلی منتخب خاتون وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز نے تو اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے پہلے ہی روز رمضان پیکج کا اعلان کر دیا جس پر عملدرامد کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اس پیکج میں یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کو سستے نرخوں پر اشیائے خوردونوش کی فراہمی بھی شامل ہے چنانچہ یوٹیلٹی سٹورز کے ”جی داروں“ نے حکومتی فیصلے سے ایک ہفتہ قبل ہی چینی، آٹا، تیل، گھی سمیت متعدد اشیائے خوردونوش کے نرخ ” احتیاطاً “بڑھا دیئے تاکہ حکومت رمضان پیکج کے تحت نرخ کم کرے تو حساب برابر کیا جاسکے۔ اور پھر یوٹیلٹی سٹورز پر جس معیار کی اشیاءدستیاب ہوتی ہیں اور ان کا حصول بھی لمبی قطاروں میں لگ کر پوری خجل خواری کے بعد ممکن ہوتا ہے، اس بارے میں اب شکوہ کرنے کا تو یارا ہی نہیں رہا کہ اہلِ بینائی و سماعت نے اپنی بینائیوں اور سماعتوں پر بے نیازی کی دبیز چادر اوڑھ رکھی ہوتی ہے۔
حضور یہ تو ہمارا عمومی اجتماعی کلچر بن چکا ہے۔ ہم ماہ مقدس کے روزے رکھنے کا دینی فریضہ بھی عقیدت و احترام سے سرانجام دینگے۔ بالخصوص اس مہینے کے دوران باجماعت نماز پنجگانہ ادا کرنے کی بھی خشوع و خضوع کے ساتھ کوشش کرینگے۔ سحری‘ افطاری کے اہتمام کیلئے اپنے دسترخوان بھی انواع و اقسام کی لذتِ کام و دہن سے ضرور سجائیں گے‘ پاس پڑوس میں افطاری سے پہلے اپنے کچن میں تیار ہونیوالے پکوڑے‘ سموسے‘ دہی بھلے‘ فروٹ چاٹ ٹرے میں ڈال کر پہنچانے کے انتظام میں بھی کوئی کوتاہی نہیں ہونے دینگے اور اس مقدس مہینے کے دوران ناجائز منافع کمانے کی اگلی پچھلی کسریں نکالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ہمارے کلچر میں رمضان کریم کا تصور سال بھر کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کیلئے جیسے تیسے روپیہ کمانے اور بنانے والے مہینے والا بن چکا ہے۔ اس کلچر میں اگر درگت بنتی ہے تو اس بے چارے مایوس مقہور انسانی لاشے کی جو بے کاری‘ بے روزگاری‘ کم وسائل‘ معمولی تنخواہ اور اس کی بھی بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث اپنے وسیع خاندان کا بھاری بوجھ اُٹھانے کی تگ ودو میں پہلے ہی عملاً زندہ درگور ہو چکا ہوتا ہے۔ سو جس کے پاس پہلے ہی اپنی روزانہ ضرورت کی اشیاءخریدنے کی سکت نہیں ہوتی۔ ماہ رمضان المبارک کے دوران پل پل اٹھتے مہنگائی کے سونامیوں کے آگے تو وہ ڈھیر ہو جاتا ہے۔ اب کی بار تو گیس مہنگی اور کمیاب ہونے کے باعث گیس سلنڈروں کا ناروا اضافی بوجھ بھی بے وسیلہ عوام کے کندھوں پر آچکا ہے۔ تو ان حالات میں روزہ فاقہ کشی کا متبادل ہی بنے گا۔ اللہ کرے کہ کسی مجبور فاقہ کش کا بھرم ماہ صیام میں ٹوٹنے نہ پائے اور امیرِ شہر کو فاقہ کش کو کچھ کھا کے مر جانے کا طعنہ دینے کی ضرورت نہ پڑے ورنہ تو جناب سلطانئی جمہور کے موجودہ نئے دور میں بھی ”دن پِھرے ہیں تو بس وزیروں کے“۔
مسلسل تین سال کے دورانیہ تک پھیلی کورونا کی وبا نے ویسے ہی ہماری معیشتوں کا انجرپنجر ہلا دیا ہوا ہے‘ بیروزگاری اور مہنگائی کے عفریت کو انسانی جانوں کو نگلنے کیلئے موٹا تازہ کر دیا ہے اور کمزور معیشتوں والے پسماندہ ممالک کے حکمرانوں تک کو بھکاری بنا دیا ہے جبکہ اس مارا ماری میں لہو لگا کر ہم بھی شہیدوں میں شامل ہو چکے ہیں اس لئے ماہ رمضان کے دوران ہاتھ آئے لوٹ مار کے مواقع کو ہاتھ سے جانے دینے کا ”گناہ“بھلا کون اپنے سر چڑھائے گا۔ سو....
ساقیا‘ باہن اے مینوں بھوئیں تے
ایہہ میز کرسیاں چا لَے 
جیہڑی پئی آ‘ اورہاں لئی آ
تے کج±ھ باہروں وی منگوا لَے
سرکشی کو باندھ کر بے خودی کے سمندر میں غوطے لگانا ہی تو ہم نے ماہ مقدس والے اپنے کلچر کا حصہ بنالیا ہے۔ حکومت مہنگائی کم کرنے کے رسمی دعوے کرتی رہے گی‘ مصنوعی قلت پیدا کرکے اشیاءکے منہ مانگے دام وصول کرنیوالے مافیاز کو لگام ڈالنے کیلئے انتظامی مشینری کو متحرک کرنے کے اعلانات دلپذیر بھی جاری رکھے گی‘ چینی کے نرخ فی کلو مقرر کرکے بازاروں میں ان نرخوں کے بینر بھی آویزاں کرادیگی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کے ساتھ ساتھ وزیراعظم شہباز شریف بھی اس ماہ کے دوران نرخوں کی خود نگرانی کرنے کا کریڈٹ ضرور لے لیں گے مگر لوٹ مار کا کاروبار اسی طرح چلتا رہے گا اور ماہ رمضان کیلئے اپنائے گئے ناجائز منافع خوری کے کلچر کو فروغ ملتا ہی رہے گا۔ آپ خود ہی جائزہ لے کر اندازہ لگا لیجئے‘ رائے قائم کر لیجئے کہ ماہ رمضان آتے آتے حکومت کی زیرپرستی چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز تک میں مہنگائی جستیں بھرتی کہاں تک جا پہنچی ہے‘ ضروری استعمال کی اشیاءغائب کرکے مصنوعی مہنگائی اور اسکے ذریعے ناجائز منافع کا کس تزک و احتشام کے ساتھ اہتمام کیا گیا ہے۔ آپ ذرا عام بازاروں اور خصوصی رمضان بازاروں میں گھوم پھر کر فروخت کی جانیوالی اشیاءاور ان کے نرخوں کا جائزہ لے کر تو دیکھیں‘ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے‘ اس لئے حضور! وزیراعظم اور محترمہ وزیراعلیٰ کے خیرات بانٹنے والے تابندہ چہروں اور آسودہ ہاتھوں کے جلو میں مجبورومقہور عوام اپنے افسردہ تھکے چہروں کے ساتھ تصاویر کھنچوا کر ان کی نمودو نمائش کا اہتمام کریں تاکہ انہیں سابقہ حکمرانوں جیسا کچن ٹرک ہر چوک‘ ہر بازار‘ ہر گلی کوچے میں کھڑا کرکے کسی فرد کو بھوکا نہ سونے دینے کے اعلاناتِ دلپذیر کرنے کی توفیق حاصل ہوتی رہے اور کمپنی کی مشہوری کے ساتھ ماہ رمضان ہی نہیں‘ سال بھر کیلئے پھیلے ہاتھوں کو راشن سے فیض یاب کرنے کی سبیل نکلتی رہے۔ بھئی! اس کلچر میں اشرافیاو¿ں کے ہی تو وارے نیارے ہیں۔ انہی کی تو دکانداری چمک رہی ہے اور انکے ہاتھوں راندہ¿ درگاہ عوام کا بھرکس نکلنا ہی تو ان کے مقدرات کا حصہ بن چکا ہے…
مقدرات کی تقسیم جب ہوئی عابد
جو غم دیئے نہ گئے تھے‘ وہ میں نے جا کے لئے
آپ ماہ مقدس میں نمودونمائش والی خیرات بانٹ کر نیکیاں کمائیں‘ گھٹ گھٹ کر مرنے کا مقدر رکھنے والے عوام آپ کی ان نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتے ریں گے۔ مگر سوچ رکھیے اور جان رکھیے صاحب کہ رب کائنات نے شرف انسانیت اور تکریم انسانیت کو باوقار انسانی معاشروں کی بنیاد بنایا ہے۔ تکریم انسانیت کا تقاضا ہے کہ مستحقِ زکوٰة کو بھی اپنے پاس بلا کر زکوٰة نہ دی جائے بلکہ اس کے پاس‘ اسکے گھر جا کر اتنی رازداری میں زکوٰة کی ادائیگی کا فرض نبھایا جائے کہ اسکے پڑوسی کو بھی اسکی خبر نہ ہونے پائے۔ کیا اس بار ہم رمضان کریم کے ماہ مقدس کو تکریم انسانیت کا کلچر فروغ دینے کیلئے بروئے کار لاسکتے ہیں؟۔ حضور! تجربہ کرکے تو دیکھئے۔ بارگاہِ ایزدی میں عبادات کی قبولیت آپ کا انعام بن جائیگی۔

ای پیپر دی نیشن