جمعرات، 25 شعبان المعظم ، 1445ھ،7 مارچ 2024ئ

حکومت 300 یونٹ تک بجلی فری دینے کا وعدہ پورا کرے۔ سراج الحق
چلیں اس سیاسی شور شرابے کے موسم میں کسی کو صحیح بات کرنے کا موقع تو ملا۔ سیاسی میدان میں گو سراج الحق وہ کامیابی نہ سمیٹ سکے جس کی توقع تھی مگر ان کی موجودگی اور جماعت اسلامی کی حیثیت سے انکار بہرحال ممکن نہیں۔ کامیابی اور ناکامی اپنی جگہ، سیاسی جماعتوں کی زندگی میں یہ اتار چڑھاﺅ آتا رہتا ہے۔ اصل بات اپنے مشن پر قائم رہنا ہوتا ہے۔ اس پر جماعت قائم ہے۔ اب الیکشن کا شور تھما تو دھاندلی کا شور مچ گیا ہے۔ گرچہ جماعت اسلامی بھی دھاندلی کا شور مچا رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود سراج الحق کو یاد ہے کہ آنے والے نئے حکمرانوں نے الیکشن سے پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ 300 یونٹ تک بجلی فری مفت فراہم کی جائے گی تو اب وقت آ گیا ہے کہ اس وعدے پر عمل کیا جائے اور بجلی کے جھٹکوں سے ادھ موئے غریبوں کو ذرا سنبھلنے کا موقع ملے اور آئے روز بھاری بلوں کی ادائیگی سے انہیں نجات ملے۔ کیا حکمرانوں کے کانوں تک سراج الحق کی یہ آواز جائے گی یا وہ سنتے ہوئے بھی اسے درگزر کریں گے۔ اگر وعدہ وفا ہو گیا تو ایک ڈر یہ بھی ہے کہ کہیں ساری قوم شادی مرگ کی کیفیت میں مبتلا نہ ہو جائے۔ یہ خوشی دیکھ کر آئی ایم ایف پر تو آسمانی بجلی گرے گی اور وہ اس خوشی کو غمی میں بدلنے پر کمربستہ ہو جائے گا کہ نئی امدادی قسط سے پہلے بجلی اور مہنگی کی جائے۔ اس کا تو مشن ہی یہی لگتا ہے کہ ہر چیز غریبوں کی پہنچ سے دور ہو اور وہ مزید بدحال ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ اس بار سارا بوجھ متمول طبقات پر ڈال کر غریبوں کو اذیت بھری زندگی سے نجات دلائی جائے۔ سراج الحق بھی یہی چاہتے ہیں اور ابتدا بجلی کی فری فراہمی سے ہو۔ اگر یہ ممکن نہیں تو بے حساب لگائے ٹیکس بجلی بلوں سے ختم کئے جائیں تاکہ کچھ تو فائدہ ہو۔ 
٭٭٭٭٭
محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کے خلاف کوئٹہ میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال 
یہ نجانے کیوں اچانک بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا۔ ایسی کون سی افتاد ٹوٹ پڑی کہ پولیس والوں نے کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے ایک گارڈ کو حراست میں لے لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پولیس والوں پر گن تان لی تھی تو پولیس والے بھی گن تان لیتے۔ یوں حساب برابر ہو جاتا۔ اب اس واقعہ کے بعد بتایا گیا ہے کہ اچکزئی نے اڑھائی کنال کی اراضی ناجائز قبضہ کرکے وہاں چار دیواری بنا کر اپنے گھر میں شامل کی ہے۔ تو یہ کیا ایک روز قبل کا واقعہ تھا کہ یکدم پولیس کو ہوش آیا۔ اب اس وقت محمود اچکزئی آصف زداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار ہیں۔ ایسی کسی بھی حرکت سے سیاسی فضا میں جو ہلچل پیدا ہو گی اس کا فائدہ حزب اختلاف کو ہی ہو گا۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ زرداری جی جذبات میں آ کر مقابلے سے دستبردار ہوں۔ ویسے بھی اچکزئی جی کے ایوان میں خطاب کے بعد تو بہت سے حلقوں میں تاسف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ الیکشن میں ہارنے کا صدمہ لگتا ہے انہیں بہت زیادہ ہے۔ دیگر کئی صوبائی جماعتوں کو بھی ہے مگر اس چھاپے کے بعد جس طرح کوئٹہ اور دیگر شہروں میں محمود اچکزئی کے حامیوں نے ہڑتال کی اس سے آنے والے دنوں میں تلخی میں اضافہ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ شاید یہی اچکزئی جی بھی چاہتے ہیں کہ صوبائیت کا زہر پھیلے اور ان کا کاروبار چلتا رہے۔ ویسے بھی قیام پاکستان کے بعد بہت سے لوگوں کے سینے میں جلنے والی آگ کے باعث ابھی تک ”دیر سے بو کباب کی سی ہے“ 
اس لیے مقتدرہ والے نرم روی سے کام لیں۔ زیادہ تیزی نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔ پہلے ہی بلوچستان میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ 
٭٭٭٭٭
ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے سختی سے کام لیا جائے۔ مریم نواز 
ہر روز ہماری سڑکوں پر نجانے کتنے معصوم بچے، جوان اور مرد و خواتین ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اگر صرف ایک سال کے اعداد و شمار جمع کئے جائیں تو المیوں سے بھری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو ہم لوگ اس طرف ذرا بھر بھی توجہ دیں ٹریفک قوانین سے لاعلمی، تیز رفتاری، کم عمر اور نشئی ڈرائیور ان حادثات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ناقص خراب گاڑیاں اور ڈرائیوروں سے ڈبل ڈیوٹی کی وجہ سے بھی ان حادثات کی شرح بڑھتی ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان کا لالچ اور زیادہ سے زیادہ سواریاں بٹھانے کا جنون بھی حادثات میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے سختی سے ٹریفک قوانین پر عمل کرنے اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے جو احکامات دئیے ہیں خدا کرے ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد بھی ہو۔ ورنہ ایسے احکامات ہمارے نڈرمنچلے ڈرائیورہوا میں اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ ویسے بھی بااثر افراد نے قانون کو موم کی ناک سمجھ کر کوئی اہمیت تو دینی نہیں ہوتی اس لیے کہیں اب بھی ٹریفک پولیس کا سارا زور صرف رکشہ اور موٹر سائیکل والوں پر ہی نہ نکلے۔ کیونکہ بسوں، ویگنوں والے منتھلیاں دیتے ہیں۔ بڑی گاڑیوں والے کسی کی پرواہ نہیں کرتے یوں حادثات پر قابو پانے کا چیلنج دیکھتے ہیں موجود حکومت کیسے نبھاتی ہے اور مسافروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
دنیا بھر میں تکنیکی خرابی کے باعث فیس بک اور انسٹاگرام کی بندش
اس عام تکنیکی مسئلہ پر بھی ہمارے ہاں لوگوں نے افواہوں کا طوفان کھڑا کر دیا۔ بات کچھ یوں تھی کہ چند روز سے پاکستان میں سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اب یہ سب کچھ خواب و خیال ہی تھا کہ اس پر بحث مباحثہ شروع ہو گیا۔ لوگ اسے اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش قرار دے رہے تھے۔ اس شور شرابے میں گزشتہ روز اچانک تکنیکی خرابی کی وجہ سے فیس بک اور انسٹاگرام میں چند گھنٹوں کے لیے بندش آ گئی۔ بس پھر کیا تھا۔ سوشل میڈیا کے بیماروں کی جان پر بن آتی ان کے ہونٹ خشک ہو گئے۔ انگلیاں بے جان ہو گئیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہو گئیں۔ یوں لگتا تھا گویا سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے ہاں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی بلونگڑوں نے اعلان کر دیا کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی ہے۔ اس لیے فیس بک اور انسٹاگرام بند کر دئیے گئے ہیں۔ اب سب اس بات کو لے کر دوڑ پڑے اور کان کسی نے چیک نہیں کیا۔ اس وقت کے گزرنے کے بعد جب سوشل میڈیا بحال ہوا تو پتہ چلا مسئلہ کیا تھا۔ مگر اس دوران جو افواہوں کا بازار گرم رہا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم لوگ کانوں کے کتنے کچے ہیں۔ چند روز قبل اگر یاد ہو تو امریکہ نے کہا تھا کہ روس انٹرنیٹ کے زیر آب نظام میں تکنیکی خرابی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب یہ اتنی ظالمانہ سائنسی باتیں وہی جانیں۔ عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت صرف وقت گزارنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ عام لوگ اپنی دلچسپی کی سائٹس دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد سیاسی ورکروں کا نمبر ہے جو سیاسی جنگ سوشل میڈیا پر لڑتے ہیں اور تیسری جنگ عظیم سے بھی بڑا معرکہ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اصل صارفین یعنی تجارت و کاروبار سے منسلک لوگ آتے ہیں جو کام کاج کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ اصل میں ہرج ان کے کام کا ہوتا ہے مگر شور دوسرے مچاتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن