پولیس کی فوری اصلاح کی ضرورت

May 07, 2009

ڈاکٹر اعجاز احسن
سری لنکا کی کرکٹ ٹیم اور مناواں کے پولیس ٹریننگ سکول پر دہشت گردوں کے کامیاب حملے ہر دو مقامات کے حفاظتی انتخابات کی ناکامی کا بین ثبوت ہیں۔ پولیس کے دہشت گردوں سے نپٹ نہ سکنے کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کو اس سلسلے میں تربیت ہی نہیں دی گئی۔ اسکے برعکس انکو تربیت یہ دی گئی ہے کہ کس طرح حکومت کے سیاسی مخالفوں کو ڈرا دھمکا کر رام کیا جاتا ہے اور کس طرح سے وی وی آئی پی حضرات کی نگہداشت کی جاتی ہے۔ اسکے عوض پولیس کو عوام کے ساتھ کھل کھیلنے کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔ قارئین کرام! دراصل اس میں ہمارا آپکا بھی قصور ہے۔ عرصہ دراز سے ہم نے پولیس کی تحویل میں نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اترتے دیکھا ہے اور اس بارے میں کچھ نہیں کیا عرصہ دراز سے پولیس اہلکار ایسی غلط ایف آئی آریں درج کرتے آئے ہیں جن کی بنیاد پر کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ہو سکتی اور ہم نے خاموش تماشائیوں کا رول ادا کیا ہے۔ اسکے علاوہ کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست کی اراضی پر چوری کی واردات ہوئی۔ چور پکڑا گیا اور میرے عزیز کی موجودگی میں تھانیدار کے سامنے لایا گیا۔ تھانیدار صاحب بولے ’’اوئے تم ہمارے علاقے میں ، ہماری اطلاع کے بغیر وارداتیں کرتے ہو؟‘‘ یعنی غور فرمائیے! لیکن ہم لوگ ایسے مواقع پر کچھ نہیں کرتے رہے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پولیس مجرموں کیخلاف سرگرم ہونے کی بجائے انکے سرپرست کے طور پر ابھری ہے۔ اب اگر ان سے مجرموں اور خصوصاً دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کا کام لیا جانا ہے تو انکی ازسرنو اور بالکل مختلف خطوط پر ٹریننگ کرنا پڑیگی۔ اگر وطن عزیز کو مکمل تباہی سے بچانا ہے تو محکمہ پولیس کے سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات فوری طور پر اٹھانا ہونگے۔ ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان کے کوٹے ، جن کے ذریعہ ہر محکمہ میں سفارشی افراد بھرتی ہوتے ہیں ، ختم کرنا ہونگے تاکہ میرٹ کی بنا پر بھرتی ہو، اور بہترین میٹریل سامنے آئے۔ ہر اہم پوسٹ پر سب سے اہل افسروں کو تعینات کرنا ہوگا، تاکہ محکمہ تربیت یافتہ اور جان پر کھیلنے والے دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکے۔ یہ وطن عزیز کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ پولیس جوانوں اور نوجوان افسروں کی تربیت سخت مشقت کے ماحول میں اور جدید ترین خطوط پر کرنا ہو گی۔ پولیس اکیڈمیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا ، جہاں دہشت گردی کیخلاف ٹریننگ بھی تربیت کا لازمی حصہ ہو۔
ترقی یافتہ ممالک سے پولیس انسٹرکٹر منگوانے ہونگے ، تاکہ وہ ہمارے پولیس کے عملے کو شہری گوریلا جنگ لڑنے کی تیار کر سکیں جو ہم نے اپنی غلط پالیسوں کی وجہ سے اپنے سر موڑھ لی ہوئی ہے۔ ہزاروں جوانوں پر مشتمل ایلیٹ فورس قائم کرنا ہو گی اور ایمرجنسی میں اسے بروقت استعمال بھی کرنا ہو گا۔
پولیس فورس کے دفتروں اور رہائش گاہوں میں اونچی ، خاردار برقی تاروں، داخلہ کے مقامات پر رکاوٹوں اور گشت کا اہتمام کرنا ہوگا۔ پولیس کے عملے کو باور کرانا ہو گا کہ اگر وہ ٹریننگ کے ذریعہ اپنے آپکو سخت جان نہیں بنائیں گے تو وہ دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ پولیس کی تنخواہوں میں مزید معقول اضافہ کرنا ہو گا تاکہ کرپشن کے رجحان میں کمی کی جا سکے۔ اگر ہماری پولیس پروفیشنل سے عاری ہے تو سوال یہ ہے کہ کب انکو پروفشنل ہونے دیا گیا ہے؟ ہر نئی حکومت تمام پولیس افسران کے تبادلے کئے بغیر اپنا کام شروع نہیں کرتی اور وہ انکو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہے۔
ماضی میں پولیس کی اصلاح کیلئے کئی ایک کمیشن تشکیل دئیے گئے لیکن نتیجہ صفر نکلا۔ بہرحال آج کل تمام سروسز بشمول پولیس میں حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں جو آج سے چند دہائیاں قبل کسی کے بھیانک خوابوںمیں بھی نہ تھے۔ اسکے علاوہ موجودہ پبلک سیفٹی کمیشن کو بھی فعال کرنا ضروری ہے۔ یہ کمیشن صوبائی اور ڈویژنل سطح پر ہونے چاہئیں۔ ضلعی پبلک سیفٹی کمشنوں کے ممبران کا اتنا قد کاٹھ نہیں ہوتا کہ وہ افسران کیخلاف کارروائی کر سکیں۔ اس لئے ضلعی کمشنوں کی جگہ ڈویژنل کمشن تربیت دئیے جانے چاہئیں۔
آخر میں ایک اور بات صوبے کے صدر مقام سے بیٹھ کر سارے صوبے کی پولیس کو کنٹرول کرنا کسی ایک افسر یعنی آئی جی صاحب کے بس کا روگ نہیں اگر اس امر کا ثبوت درکار ہو تو ذرا نظر دوڑائیے ، کسی کی جان ، مال یا عزت سلامت نہیں ، پہلے صرف ڈکیتیاں ہوتی تھی اب ڈکیتیوں میں ایک خاصی تعداد میں لوگ قتل بھی ہو رہے ہیں۔ اس میں شاید کسی آئی جی کا بھی قصور نہ ہو دراصل دس بارہ کروڑو کے صوبے کے امن و امان کا ایک دفتر سے کنٹرول ناممکنات میں سے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بھی سارے صوبہ کی ایک پولیس فورس نہیں ہوتی بلکہ ہر ضلع یعنی کاونٹی وغیرہ کی اپنی پولیس ہوتی ہے ، جہاں اس ضلع کے معاملات زیادہ تفصیل میں زیر نظر رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں غیر ملکی حکمرانوں نے صوبے کی ایک پولیس رکھی ہوئی تھی کیونکہ انگریز افسران ملکی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ انگریزی راج دراصل فوج کے بل بوتے پر تھا۔ آج خدا کے فضل سے ایسی بات نہ ہے ۔ ضلع کی اپنی پولیس ہونی چاہئے۔ پورے صوبہ کی ایک پولیس کا تجربہ پچھلے ساٹھ سال سے ہو رہا ہے اور ناکام ہوا ہے۔ ضلعی پولیس سے بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
مزیدخبریں