ایک تجزیہ! BENAZIR,S MURDER MYSTERY

May 07, 2010

شوکت علی شاہ
خارزارِ سیاست میں اسے کئی دفعہ آبلہ پا ہونا پڑا۔ دو دفعہ وزیراعظم بنی اور دونوں دفعہ اسے سازش کے ذریعے ہٹایا گیا۔ ایک طویل عرصہ تک جلاوطنی کاٹی۔ بے شمار مقدمات کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بالآخر جب وطن واپس آئی تو اسے اس بات کا پورا ادراک تھا کہ موت ایک سائے کی طرح اس کا تعاقب کر رہی ہے۔ قاتل کو بھی اس بات کا بخوبی علم تھا کہ سوائے مرگ ناگہانی کے کوئی طاقت بھی اسے تیسری بار وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکتی۔.... کئی دوست ملکوں نے محترمہ کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بھی تحریری طور پر انہیں روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی تحریر وتقریر میں تو ممکنہ حملہ آوروں کے نام تک لے دئیے۔ اس حد تک صرف سوچنے والی بات یہ ہے کہ آیا وہ لوگ اس قدر طاقتور منہ زور اور کم عقل تھے کہ یہ جانتے ہوئے بھی F.I.R ان کے نام کٹے گی یہ حرکت کر گزرے یا وہ کوئی اور لوگ تھے جو اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے؟۔
-6 جس دن محترمہ واپس وطن آئیں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ جلوس مزار قائد کی طرف جا رہا تھا کہ خود کش حملہ ہوگیا۔ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پارٹی ورکر لقمہ اجل بنے۔ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ پولیس نے بڑی مشکل سے انہیں ٹرک سے نکالا اور سرکاری گاڑی میں بٹھا کر بحفاظت گھر پہنچا دیا۔ اس کے بعد وہ روز سیاہ آن پہنچا۔ جب وہ ایک عوامی جلسے سے خطاب کرنے راولپنڈی پہنچیں۔ ایک بار پھر حکومت نے انہیں روکنے کی کوشش کی غالباً تحریری طور پر بھی بتایا گیا کہ حملہ ہو سکتا ہے۔ اس بات کی بھی ضمانت لی گئی کہ وہ راستے میں گاڑی سے باہر نہیں نکلیں گی۔ عام حالات میں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ حکومت ان کی مقبولیت سے خائف ہے اور نہیں چاہتی کہ وہ عوام سے رابطہ کر سکیں۔ چونکہ کراچی میں خدشات درست ثابت ہوئے تھے اس لئے اس وارننگ کو Lightly نہیں لیا جا سکتا تھا۔
-7 دراصل مقبول عوامی لیڈروں کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے وہ زیادہ دیر تک اپنے آپ کو عوام سے دور نہیں رکھ سکتے اور نہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ڈر کی وجہ سے نہیں اپنے درشن نہیں دے سکتے۔ اگر لیڈر مرد ہو تو اس کے لئے کچھ لوگوں سے ہاتھ ملانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جو لوگ مورچہ بند ہو کر بیٹھتے ہیں وہ نہ تو عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ووٹ۔ محترمہ کے پائے کے لیڈر انانیت کے اس موڑ پر پہنچ چکے ہوتے ہیں جو پیچھے مڑنا تو درکنار پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ وہ کسی صورت بھی سیاسی موت مرنا نہیں چاہتے۔ وہ اس مقدمے پر پورا یقین رکھتے ہیں۔
ONE CROWDED HOUR OF GLORIOUS LIFE IS WORTH AN AGE WITHOUT A NAME
انگریزی محاورہ کا لفظوں سے ہٹ کر ترجمہ کچھ اس طرح ہو سکتا ہے۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ حیات سے بہتر ہے۔ محترمہ یقیناً ایک بہادر باپ کی نڈر بیٹی تھیں۔ وہ تاریخ کی دہلیز پر کھڑی تھیں۔ گو انہیں اپنی زندگی کی حفاظت مقصود تھی لیکن موت کی آنکھوں میں بھی آنکھیں ڈال رکھی تھیں۔ قوم انہیں ایک بار پھر وزیراعظم دیکھنے کی متمنی تھی۔
-8 محترمہ کی شہادت ہماری ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ لیاقت علی خان ضیاءالحق بھی اسی راہ سے گزر چکے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ ضیاءالحق کے حادثے کو غیر ملکیوں کے کھاتے میں ڈال کر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ مرتضیٰ کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ کیا ان حالات میں بے نظیر کے قاتل پکڑے جائیں گے؟۔
اس واقعے کو دو سال ہوگئے ہیں۔ ساری قوم ایک ذہنی خلفشار میں مبتلا ہے۔ کئی انکوائریاں ہو چکی ہیں۔ مقامی تفتیش کے علاوہ مشہور زمانہ اسکاٹ لینڈ یارڈ منگوائی گئی۔غالباً حکومت کی اس پر بھی تسلی نہ ہوئی اور اربوں روپے خرچ کر کے اقوام متحدہ کی ٹیم سے تفتیش کرائی گئی۔ پہلے تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک ایسی ایجنسی کی تفتیش کے بعد جو سائنٹیفک بنیادوں پر تفتیش کرتی ہے۔ ایک ایسے ادارے کو انکوائری کیوں سونپی گئی ہے جو اس ہنر میں پہلے کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے جسے شرلاک ہومز کی انوسٹی گیشن کے بعد ڈاکٹر واٹسن کو کہا جائے کہ تمہارا استاد ناکام ہو چکا ہے لہٰذا اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کا کام نہیں سونپا ج انا ہے (ویسے آج کل ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے شرلاک ہومز اور ڈاکٹر والٹسن کے فرائض ناہید خان اور صفدر عباسی کو سونپے ہوئے ہیں۔ ان سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ محترمہ کے قاتل کون ہیں۔ ان کا سکہ بند جواب ملتا ہے۔ وہی جو ہیں۔ (جاری ہے)
مزیدخبریں