(شائستہ خان).............
اللہ نے دو آنکھیں کس لئے دیں، اس لئے کہ اس کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا کو دیکھیں کوئی شک نہیں! بے شک ہر کسی کو ہم اس طرح بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ اس لئے بھی دیں کہ ایک آنکھ سے ہم اپنے آپ کو دیکھیں اور دوسری آنکھ سے دوسروں کو! پر ہم لوگ دوسروں کو دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں اپنے آپ کو نہیں۔ ہمارے ملک کے جو موجودہ حالات ہیں اس میں یہ جل رہا ہے کہ اپنے آپ کو نہ دیکھو بس دوسروں کی باتیں کروں اور ایک لفظ جو کہ ”میں“ میرے پاس اختیارات ہوتے تو میں یہ کرتا/ کرتی میں ملک کے حالات بدل کر رکھتا/ رکھتی وغیرہ وغیرہ۔ ارے اختیارات کس کے پاس نہیں ہیں اختیارات سب کے پاس ہیں بس ان اختیارات کی ایک حد ہے مثلاً آپ کے پاس آپ کی ذات کے اختیارات، کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ اپنے ساتھ اپنی ذات کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ اپنے شہری حقوق ادا کر رہے ہیں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بحران ہر دور میں ہر ملک میں آئے پر وہاں کے عوام اور حکومت نے ایک ہو کر اس کا مقابلہ کیا نہ کہ عوام سڑکوں پر آ کر ٹائر جلاتی ہے اور نہ حکومت خیالی پلان بناتی ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کا بحران ہے، ذمہ دار کون ہے حکومت! یہ حکومت کس نے بنائی ہم نے تو کیا ہم ذمہ دار نہ ہوئے؟ ہم خود کیا کرتے ہیں کبھی بجلی کی بچت کی؟ کیا کبھی سوچا کہ فضول بتیاں بند کر دیں، ہم لوگ مارکیٹ کو کیوں جلدی بند نہیں کر سکتے؟ کیا یہ ناممکن ہے، بالکل بھی نہیں سب ممکن ہے بس مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اسے اپنی ”انا“ کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری رات عشاءکی نماز کے بعد شروع ہو جاتی ہے اور صبح فجر کے وقت پر۔ یہ سب اب یورپ میں ہوتا ہے ہم لوگ تو بس نام کے مسلمان ہو کر رہ گئے ہیں ۔ افسوس! ہم لوگوں نے اس بات کو فخر کا نشان بنا لیا ہے کہ رات کو دیر سے سویا جائے کیونکہ Middle class یہ سب afford نہیں
کر سکتی۔ ایک عام سی بات ہے بنک کے اوقات صبح9 بجے سے شام 5 بجے تک ہیں لوگ اپنی ضروریات کے لئے جاتے ہیں تو کیا وہ مارکیٹ جلدی نہیں جا سکتے؟ ہم سب کو ذہن میں ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا مارکیٹ جلدی بند ہونے سے لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی؟ ہو گی ضرور ہو گی پر ہم جب اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں گے تو کم از کم ہمارا ضمیر تو مطمئن ہو گا ہم تو اگلے جہاں میں منہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔
اللہ نے دو آنکھیں کس لئے دیں، اس لئے کہ اس کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا کو دیکھیں کوئی شک نہیں! بے شک ہر کسی کو ہم اس طرح بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ اس لئے بھی دیں کہ ایک آنکھ سے ہم اپنے آپ کو دیکھیں اور دوسری آنکھ سے دوسروں کو! پر ہم لوگ دوسروں کو دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں اپنے آپ کو نہیں۔ ہمارے ملک کے جو موجودہ حالات ہیں اس میں یہ جل رہا ہے کہ اپنے آپ کو نہ دیکھو بس دوسروں کی باتیں کروں اور ایک لفظ جو کہ ”میں“ میرے پاس اختیارات ہوتے تو میں یہ کرتا/ کرتی میں ملک کے حالات بدل کر رکھتا/ رکھتی وغیرہ وغیرہ۔ ارے اختیارات کس کے پاس نہیں ہیں اختیارات سب کے پاس ہیں بس ان اختیارات کی ایک حد ہے مثلاً آپ کے پاس آپ کی ذات کے اختیارات، کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ اپنے ساتھ اپنی ذات کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ اپنے شہری حقوق ادا کر رہے ہیں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بحران ہر دور میں ہر ملک میں آئے پر وہاں کے عوام اور حکومت نے ایک ہو کر اس کا مقابلہ کیا نہ کہ عوام سڑکوں پر آ کر ٹائر جلاتی ہے اور نہ حکومت خیالی پلان بناتی ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کا بحران ہے، ذمہ دار کون ہے حکومت! یہ حکومت کس نے بنائی ہم نے تو کیا ہم ذمہ دار نہ ہوئے؟ ہم خود کیا کرتے ہیں کبھی بجلی کی بچت کی؟ کیا کبھی سوچا کہ فضول بتیاں بند کر دیں، ہم لوگ مارکیٹ کو کیوں جلدی بند نہیں کر سکتے؟ کیا یہ ناممکن ہے، بالکل بھی نہیں سب ممکن ہے بس مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اسے اپنی ”انا“ کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری رات عشاءکی نماز کے بعد شروع ہو جاتی ہے اور صبح فجر کے وقت پر۔ یہ سب اب یورپ میں ہوتا ہے ہم لوگ تو بس نام کے مسلمان ہو کر رہ گئے ہیں ۔ افسوس! ہم لوگوں نے اس بات کو فخر کا نشان بنا لیا ہے کہ رات کو دیر سے سویا جائے کیونکہ Middle class یہ سب afford نہیں
کر سکتی۔ ایک عام سی بات ہے بنک کے اوقات صبح9 بجے سے شام 5 بجے تک ہیں لوگ اپنی ضروریات کے لئے جاتے ہیں تو کیا وہ مارکیٹ جلدی نہیں جا سکتے؟ ہم سب کو ذہن میں ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا مارکیٹ جلدی بند ہونے سے لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی؟ ہو گی ضرور ہو گی پر ہم جب اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں گے تو کم از کم ہمارا ضمیر تو مطمئن ہو گا ہم تو اگلے جہاں میں منہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔