سوئس مقدمات پر حکومتی موقف توہین عدالت ہے: قانونی ماہرین، سیاسی رہنما

May 07, 2010

سفیر یاؤ جنگ
اسلام آباد (اے این این + آن لائن + جی این آئی) ماہرین قانون، سیاسی رہنماﺅں اور تجزیہ کاروں نے سوئس کیسز سے متعلق حکومت کے موقف کو توہین عدالت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنے احکامات پر عمل کرانے کےلئے کسی بھی ریاستی ادارے سے مدد طلب کرنے کا آئینی حق ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ سوئس کیسز کے متعلق حکومت نے جو انداز اختیار کیا ہے اس کی دستور مےں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاں تک ہتک عدالت کا تعلق ہے تو وزیراعظم کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ سپریم کورٹ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنےوالوں کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے۔ دریں اثناء معروف قانون دان جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ این آر او کو عدالت نے ختم کر دیا اب اٹارنی جنرل کے پاس چوں چراں کی گنجائش نہیں سوئس حکام کو خط لکھنا لازم ہے اور سوئس عدالت اب فیصلہ کرے گی کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں ہے۔ دریں اثناءسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی محمد انور نے کہا ہے کہ کچھ حکومتی لوگ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کرانے پر تلے ہوئے ہیں، اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ میں بیان کوئی اچھی خبرنہیں ہے ،اس پر ہمیں دکھ ہوا ،مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ حکمران عدلیہ کے ساتھ ٹکراﺅ پر کیوں بضد ہیں؟۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ نواز شریف 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد سوئس کیسز اوپن کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے جبکہ اے این پی کے ترجمان زاہد خان نے کہا ہے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ دریں اثناءپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا ججوں کی تعیناتی میں انتظامیہ کے کردار کو عدلیہ کی آزادی کے منافی قراردینا تحریک انصاف کے موقف کی تائید ہے۔ تحریک انصاف نے پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا تھا۔
مزیدخبریں