سینٹ : 18 ویں ترمیم کے بعد 12 آرڈیننسوں کے اجراءپر گرما گرم بحث

اسلام آباد (وقائع نگار + ایجنسیاں) سینٹ میں صدر آصف زرداری کی جانب سے 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد 12 آرڈیننس جاری کرنے کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی، چیئرمین نے وزیر قانون، رضا ربانی اور لطیف کھوسہ کو ہدایات جاری کرتے ہوئے پروفیسر خورشید کی تحریک استحقاق کو بدھ تک موخر کر دیا، صدر زرداری کے مشترکہ اجلاس میں خطاب پر بحث شروع ہو گئی۔ چیئرمین فاروق نائیک نے وقفہ سوالات کے دوران وزراء کی غیر حاضری پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے وزیر اطلاعات اور قائد ایوان کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزیراعظم کو آگاہ کریں کہ وزراء سینٹ اجلاس میں دلچسپی نہیں لیتے، اگر وزیراعظم نے نوٹس نہ لیا تو خود رولنگ دوں گا۔ فاٹا کے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھانے پر فاٹا اور جے یو آئی کے ارکان نے ایوان سے واک آﺅٹ کیا۔ تفصیلات کے مطابق پروفیسر خورشید نے تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے مہینے جاری ہونے والے آرڈیننس اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کی خلاف ورزی ہیں۔ ان آرڈیننسوں پر 19 تاریخ کو دستخط ہوئے اور 21 اپریل کو ان کا اجراءہو گیا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم 19 اپریل سے آئین کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر صدر نے آرڈیننسوں پر دستخط 19 اپریل سے پہلے کئے ہیں تو یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں لیکن اگر اس کے بعد دستخط کئے گئے ہیں تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ جمال لغاری نے ایوان سے سفارش کی کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ارکان سینٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دے جو اس معاملے کی انکوائری کرے کہ لاپتہ ہونے والے افراد کو کن اداروں نے کس الزام کے تحت اٹھایا ہے۔ صدر کے خطاب پر بحث کے دوران ارکان نے کہا کہ پرویز مشرف کے جانے کے بعد آج بھی بلوچستان میں ایجنسیوں کا راج ہے۔ حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ کرپشن کے باعث ملک نائیجیریا بن گیا، ہمیں پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین پر عملدرآمد کرانا ہو گا۔ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ جس پر سب کے دستخط تھے اس کا متن تبدیل کر دیا گیا ہے، اسے ایک سیکرٹری کی ہدایت پر تبدیل کیا گیا، اگر ایک دستاویز جس پر وزراءاعلیٰ نے دستخط کئے اسے بیورو کریسی تبدیل کر دے تو پارلیمنٹ کی بالادستی اور خودمختاری کہاں ہے۔ ملک میں نئے صوبوں کی بازگشت سٹیبلشمنٹ کی چال اور قوموں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ نعیم حسین چٹھہ نے کہا کہ صدر کے خطاب میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ ملک میں بجلی پانی کے بحران پر حکومت کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ صدر کو اردو میں خطاب کرنا چاہئے، جو لوگ دنیا سے چلے گئے ہیں ان کے نام پر سیاست کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ انہوں نے پشتو کا ایک شعر پڑا اس کا ترجمہ بتاتے ہوئے کہا کہ ”اگر دلہن خوبصورت نہ ہو تو اس کی ماں اور دادی کی خوبصورتی کا کیا فائدہ“۔جمعرات کے اجلاس کے دوران وزیر داخلہ رحمان ملک اور وزیر مملکت داخلہ تسنیم قریشی کے ایوان میں نہ آنے پر چیئرمین نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ دریں اثنا وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے پیمرا آرڈیننس موجود ہے‘ 2007ءمیں اس قانون میں ترامیم کی گئیں ہماری حکومت نے ان ترامیم کا خاتمہ کردیا ہے نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کو ایک ضابطہ کے تحت لانے کیلئے قواعد مرتب کئے جارہے ہیں اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے اور تمام فریقوں سے مشاورت کرکے ضابطہ اخلاق تیار کیاجائیگا۔ انڈین چینلز سے کوئی اختلاف نہیں تاہم اگر وہ پاکستان کے مفادات کیخلاف کام کرینگے تو ان کو لینڈنگ حقوق نہیں دینگے،دہشتگردی کیخلاف جنگ کے دوران لگائے گئے ریڈیو چینلز بند کردیئے گئے ہیں۔ وہ سینٹ میں خطاب کر رہے تھے۔

ای پیپر دی نیشن