قومی انتخابات اور مستقبل کی حکومت کو درپیش مسائل!

11مئی قومی انتخابات کا دن ہے اس دن میں اب چند دن باقی ہیں پورے ملک میں حالات ساز گار نہ ہونے کے باوجود قومی انتخابات کا انعقاد پاکستان کے سول اور عسکری اداروں میں خوشگوار تعلقات کی نشاندھی کرتا ہے دوسری جانب ان قومی انتخابات میں نوجوانوں کا جذبہ بھی دیدنی ہے نوجوان خواہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا حصہ ہوں اس بار اب یہ بات طے ہے کہ ان انتخابات میں نوجوان اور نئے ووٹروں کا عملی کردار انتہائی اہم ہو گا ذات برادری اور گروہی سیاست بلاشبہ ابھی تک قائم ہے ملک کے چند چیدہ چیدہ خاص سیاسی خاندانی حلقوں میں برادری ازم بھی جوں کا توں برقرار ہے اس کے ساتھ جاگیردارانہ اثر و رسوخ بھی قائم ہے لیکن اس بار یہ تمام روایتی سیاسی دھڑے بندیاں ٹوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ موروثیت کا سحر اور خاندانی اجارہ داری بھی دم توڑتی ہوئی عوامی سیاست کی جانب جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے خاص طور پر ان انتخابات میں نوجوانوں کا جوش و جذبہ اور پاکستان میں تبدیلی لانے کا عزم واقعی قابل تحسین ہے افواج پاکستان کا گزشتہ حکومت کے دور میں جو کردار رہا ہے اس پر عسکری ادارے بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں سبکدوش ہونے والی حکومت کے دور میں بار بار ایسے مرحلے آئے کہ جب افواج پاکستان کی مداخلت کا جواز بنتا تھا لیکن افواج پاکستان نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں رقم کروا لیا ہے عسکری اداروں نے جس نظم و ضبط اور قومی وحدت کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اس کا تمام تر کریڈٹ افواج پاکستان کے سینئرافسران اور سروسز چیفس کو جاتا ہے افواج پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں اپنے افسران اور جوانوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی نظام کو بھی بچائے رکھا ہے اب امید کی جا سکتی ہے کہ افواج پاکستان میں دوبارہ پرویز مشرف جیسے جرنیل پیدا نہیں ہوں گے فوج نے قومی انتخابات کے دوران بھی اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے ان انتخابات کو غیر جانبدار اور شفاف بنانا ہے ملک کے سیاسی مستقبل میں اب دو سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک اور پنجاب میں چند مخصوص حلقوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے جبکہ ایم کیو ایم کا بھی اپنا کردار ہے اور وہ سیاست میں طاقت ور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے اے این پی اور مولانا فضل الرحمن گروپ محض چند خاص حلقوں تک ہی اپنی حیثیت برقرار رکھے گا جبکہ جماعت اسلامی اور صوبوں میں دیگر چھوٹے صوبائی سیاسی گروپس بھی اس بار اپنا سیاسی کردار مضبوط بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب میں چھوٹی سیاسی پارٹی جو کہ پنجاب کی حد تک ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے وہ راولپنڈی کے شیخ رشید کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے جبکہ چوہدری برادران اس بار اپنی خاندانی اور مخصوص نشستوں تک ہی محدود رہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال یقینا قومی انتخابات پر اثر انداز ہو گی اسی طرح خیبر پی کے میں بھی امن و امان کا مسئلہ ان انتخابات میں ضرور اثر ڈالے گا ان تمام تر حالات میں اب قومی وحدت اور ملکی سلامتی کا تقاضا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں پارٹیاں نئے پاکستان کے لئے ایک مشترکہ قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں اور دیگر سیاسی گروپس بھی ان کے ساتھ مل کر قومی وحدت کا مظاہرہ کریں آئندہ آنے والی حکومت کو بے پناہ مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے ملکی ادارے میرٹ کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو کر نااہل افسران اور منظور نظر لوگوں کے حوالے ہو چکے ہیں۔وی آئی پی کلچر،لوٹ مار اور ٹیکس کی چوری پاکستان کو کھوکھلا کر چکی ہے بے روزگاری اور عوام کی بنیادی ضروریات کا جنازہ نکل چکا ہے صحت، تعلیم اور انصاف کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے بجلی، پانی اور گیس ایک خطرناک بحران کا منظر پیش کر رہے ہیں امن عامہ اور دہشت گردی کا ناسور اپنی جگہ دن بدن بڑھ رہا ہے مختصر یہ کہ قومی انتخابات کے بعد ملک میں بننے والی حکومت کو ہر قیمت پر سیاسی نظم و ضبط اور قومی وحدت کے تقاضوں کو برقرار رکھنا ہو گا اور انقلابی اصلاحات کے بغیر عوام کی حمایت برقرار رکھنا انتہائی مشکل کام ہو گا نوجوان ووٹر اس وقت پاکستان میں حقیقی تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور یہ فرسودہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اب عوام امریکی تسلط سے بھی نجات چاہتے ہیں بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند ہونے کے علاوہ پاکستان میں بھارت کے ثقافتی کلچر کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں جو کہ بعض پاکستانی میڈیا گروپس کے تعاون سے پاکستان میں لایا جا رہا ہے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو ہنگامی بنیادوں پر سنبھالا دینے کی غرض سے گیارہ مئی کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومت کو جن انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ان میں ملک کے مراعات یافتہ طبقہ کی شخصیات کے علاوہ حکومتی عہدوں پر فائز اعلیٰ شخصیات اور پھر سابق حکمرانوں سمیت ملک کے تمام سیاستدانوں کے غیر ملکی بنکوں میں محفوظ سرمایے کو واپس پاکستان لانے کیلئے ہنگامی قانون کا نفاذ کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ ہی سابق حکومت کے وزیروں، مشیروں اور من پسند شخصیات کو جاری کردہ قرضوں کی تفصیل عام کرنے کے علاوہ ان قرضوں کو واپس لینے کے اقدامات بھی کرنے ہوں گے معاف کئے گئے قرضوں کی وصولی بھی ضرور ہونی چاہیے بلاوجہ مقدمہ بازی اور عدالتوں میں VIP شخصیات کو پیش کرکے قومی سرمایہ واپس لانے کی حکمت عملی اب ختم ہونی چاہیے۔ ملکی مفاد اور قومی ایجنڈے کے تحت لوٹی گئی قومی دولت جنگی بنیادوں پر ہنگامی قوانین نافذ کرکے واپس لی جا سکتی ہے ملکی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کا یہ ہی ایک طریقہ ہے۔ جس پر آنے والی حکومت بلا امتیاز عمل کروائے اور خود حکومت میں شامل ہر شخص اور ہر عوامی نمائندہ ان قوانین کا پابند ہو پاکستان قرضوں کی لعنت سے آزاد ہو کر ہی غیر ملکی قوتوں کے شکنجے سے باآسانی آزاد ہو سکتا ہے سرزمین پاکستان پر صرف اور صرف پاکستان ہی کا ایجنڈا نافذ ہو امریکی اور برطانوی ایجنڈوں اور ان کی مشاورت سے پاکستان کو آزاد کروایا جائے اور آئندہ NRO جیسے عوام دشمن معاہدے کا خاتمہ کیا جائے پاکستان کی آزاد اور خود مختار حیثیت ہر سطح پر برقرار رکھی جائے سیاستدانوں کے جلا وطن کرنے اور قوانین پاکستان سے غیر ملکی دباﺅ کے تحت قومی جرائم کے مرتکب افراد کو بچانے کی پالیسی ترک کی جائے۔ یہ وہ اصول ہیں جن پر چند روز بعد منتخب ہونے والی حکومت کو ترجیح دینی چاہیے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاسی، معاشی، اور لوٹ مار کے مافیاز کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ میرٹ کو ہر سطح پر ترجیح ہونی چاہیے پاکستان کے سیاسی اور اندرونی معاملات میں غیر ملکی مشاورت کا ہر سطح پر خاتمہ ہو، بیرون ملک جلاوطنی میں رہ کر اقتدار کیلئے گٹھ جوڑ اور سیاسی پارٹیوں کی غیر ممالک میں سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنانے کی غرض سے ہنگامی بنیادوں پر قوانین بنائے جائیں پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اگر اب بھی سیاستدانوں نے عوام کے اندر ابلتے ہوئے لاوا کو روکنے کی عملی کوشش نہ کی تو پھر خطہ پاکستان خدانخواستہ اندرونی انتشار کا شکار ہو کر کسی بڑے سانحہ سے دو چار نہ ہو جائے پاکستان کو اب ایٹمی قوت ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام عالم میں اپنے وقار کو بلند کرنا ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب گیارہ مئی کو عوام حقیقی عوامی نمائندوں کا انتخاب کریں اور ہر قیمت پر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے قومی فرض کی ادائیگی میں کسی دھونس یا دباﺅ کو خاطر میں نہ لائیں اور پھر یہ ثابت ہو جائے کہ عوام ہی ہمیشہ طاقت کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن