انسان جو کچھ بوتا ہے اسے وہی کچھ کاٹنا پڑتا ہے، یہ سارا عمل اس کی زندگی میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے اور انسان اپنے کئے کی سزا دنیا میں ہی جھیل لیتا ہے۔ کل تک کے آمر مطلق اور خود کو عقل کل سمجھنے والے پرویز مشرف کے چہرے پر جو رعونت چھلکتی تھی آج اس کے بغیر سابق آمر کا چہرہ اترا ہوا کیسا عجیب سا لگ رہا ہے۔ پرویز مشرف نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اسکے ساتھ اس قسم کا سلوک بھی ہو سکتا ہے۔ امریکا کی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہونے والے”بہادر“ جرنیل کی یہ حالت ہو گی، اس کا تصور بھی محال ہے، کیوں کہ امریکا جس کا”سرپرست“ بن جائے اسکے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے حکمران یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکا صرف استعمال کرتاہے اور جب اس کا مطلب نکل جاتا ہے تو وہ ٹیشو پیپر کی طرح کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ اب کیا کیا جائے تقدیر کے بھی کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ ” میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں“ کا دعویدار پرویز مشرف والدہ کی خرابی طبعیت کے نام پر رہائی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ پاکستان کبھی نہ واپس آنے کی شرط پر بس ایک بار سب جیل سے نکال دو، کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن تاریخ نے ہر فرعون کا علاج ضرور کیا ہے۔ آ ج پرویز مشرف کیلئے وہی محل جو اس نے اپنی شان و شوکت میں اضافہ کے لئے بنوایا تھا عذاب بن چکا ہے۔ دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے تاحیات انہیں نا اہل قرار دے کر پاکستان سے پرویز مشرف کا ناطہ ہی ختم کر دیا ہے۔ جب پرویز مشرف پاکستان آئے تو میڈیا کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے واضح کہہ دیا تھا کہ اگر وہ الیکشن میں ہار گئے تو پاکستان سے واپس چلے جائیں گے۔ عوام بھوک، غربت، افلاس، بے روزگاری اور توانائی کا بحران جیسے آدم خور مسائل میں مرے رہیں انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ حیرت ہے ہمارے سادہ لوح عوام ایسے ایسوں کو بھی ووٹ دے دیتے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پرویز مشرف کا پتہ تو صاف ہو چکا ہے، اب انہیں صرف اس ڈیل کا انتظار ہے کہ کسی طرح وہ دبئی پہنچ جائیں پھر اپنی پوری زندگی پاکستان کا رخ نہیں کریں گے۔
جہاں تک پرویز مشرف کا تعلق ہے تو اسے کسی بھی شرط پر رہا نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہیں عدالت کے پراسس سے گزاراجائے، بے نظیر قتل کیس اور نواب اکبر بگٹی جیسے محب وطن بلوچ رہنماﺅں کی شہادت کا ذمہ دار بھی پرویز مشرف ہے، ان کیسوں کا باقاعدہ ٹرائل کیا جائے اور اگر پرویز مشرف مجرم ثابت ہوتا ہے اسے قانون کے مطابق سزادی جائے۔ پرویز مشرف کو سزا دینے سے ایک تو قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی ثابت ہو جائے گی دوسرا آئندہ کوئی آمر آئین توڑنے کی جسارت نہیں کرئے گا۔ اگر ہم پاکستان کی بقا چاہتے ہیں، اگر ہم جمہوریت کا دوام چاہتے ہیں تو مہمیں بلا تاخیر پرویز مشرف کا تمام کیسوں میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے عدلیہ کے کردار کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہو گی۔ عدلیہ لائق تحسین کردار ادا کر رہی ہے اور عدلیہ نے ثابت کر دیا ہے کہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کوئی آمر مطلق ہو یا کوئی عام آدمی قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ الیکشن کا دور دورہ ہے ، ووٹر ز حضرات کو اس مرتبہ انتہائی سوچ بچار کے بعد ووٹ کاسٹ کرنا ہو گا، کیوں کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ الیکشن اہم ہیں۔ انہیں الیکشنز میں ہی جمہوریت کی بقا کا فیصلہ ہوناہے اگر جمہوری قوتیں آگے آگئیں تو پاکستان کی تاریخ یہ الیکشن انتہائی اہم ہیںاور اگر ہم جمہوری قوتوں کو نظر انداز کر دیا تو (خدانہ کرئے) ملک میں آمریت کے ایسے بادل چھائیں گے کہ کبھی سویرا ہی نہیں ہوگا اور ملک ترقی کی بجائے تنزلی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔