ڈھاکہ (ثناءنیوز+ اے ایف پی) بنگلہ دیش میں توہین رسالت کے نئے قانون کے نفاذ کے لیے حفاظت اسلام نامی تنظیم کی اپیل پر ہونے والے مظاہرے میں پولیس جھڑپوں کے دوران جاں بحق افراد کی تعداد 37ہو گئی جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔ ڈھاکہ پولیس نے وفاقی دارالحکومت کے مصروف تجارتی علاقے میں دیئے گئے دھرنے کے 70ہزار سے زائد شرکاءکو منتشر کرنے کیلئے ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس، لاٹھی چارج اور واٹر کینن، ساﺅنڈ گرنیڈز کا بے دریغ استعمال کیا اور مظاہرین کو سوموار کی صبح منتشر ہونے پر مجبور کر دیا۔ پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو شہر کے مرکزی کاروباری علاقے موتی جھیل سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور گزشتہ روز علی الصبح ہی پولیس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو سکی۔ پیر کی صبح پولیس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے علاقے کا کنٹرل سنبھال لیا ہے اور اب قریبی عمارتوں میں پناہ لینے والے مظاہرین کی تلاش جاری ہے۔ ان مظاہرین نے ایسے افراد کے لئے پھانسی کا مطالبہ کیا جو اسلام کی ہتک کرتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ حفاظت اسلام کی قوت اس کے ارکان جن کا تعلق ملک کے دینی مدارس اور درس گاہوں سے ہے دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ بنگلہ دیش ایک سیکولر جمہوریہ ہے اور حکومت ان گروہوں کے مطالبات کو رد کرتی ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی اکثریتی آبادی یعنی نوے فیصد مسلمان ہیں جبکہ باقی آبادی ہندوں پر مشتمل ہے۔