پیاری ماں دعا کرو میں جلد بڑاہوجاوں

مظہر حسین شیخ
والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا واجب ہے ۔ اگر تیری زندگی میں والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہو اور کوئی ایسی بات نہ کہو جس سے ان کی دل شکنی ہو۔(القرآن) نبی کریم نے فرمایا۔ ”اس (ماں) کے قدموں میں جنت ہے“ یعنی اولاد اس کی خدمت کرکے ہی جنت حاصل کرسکتی ہے۔اسلام میں ماں کو وہ رُتبہ دیا گیا ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں،ہرسال مئی کے دوسرے ہفتے اتوار کوماو¿ں کا عالمی دن(مدرڈے) منایا جاتا ہے،اسی حوالے سے ایک ننھے منے اور ہونہار طالب علم کی کہانی اس کی زبانی سنئے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے والدہ ماجدہ کو کام کرتے ہی دیکھا کہیں ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے لوگوں کے کپڑے سلائی کر رہی ہےں تو کبھی اُن کے گھروں میں صفائیاںکرنے جا رہی ہےں کبھی ہمارے لئے کھانا پکا رہی ہےں تو کبھی ہمارے یونیفارم اور گھر کے کپڑے دھو نے اور استری کرنے میں مصروف ہیں،غرضیکہ انہوں نے اپنی زندگی اولاد کے لئے وقف کر رکھی ہے میری تین بہنیں بھی ہیں،ہماری خاطر والدہ ماجدہ نے کیا کچھ نہیں کیا۔ میں بہت چھوٹا تھا جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا والدہ ماجدہ نے ہی ہمیں باپ کا پیار دیااور کسی قسم کی تکلیف یاکمی محسوس نہ ہونے دی۔جب بھی میں سکول جاتا ہوں تو وہ مجھے ہزاروں دعاو¿ں کے ساتھ رخصت کرتی ہےں،خدانخواستہ جب کبھی بیمار پڑجاو¿ں تو میری ایک ہائے پر تڑپ اُٹھتی ہےں،اکثر ایسا بھی ہوتا ہے سکول سے گھر آتے وقت زیادہ ٹریفک ہونے کے باعث لیٹ ہو جاو¿ں تو میں نے انہیں ہمیشہ اپنے انتظار میں گھر کی دہلیز پرمیری راہ تکتے ہوئے پایا۔ میں دور سے ماں کا چہرہ دیکھ کر اس کی پریشانی کو بھانپ جاتا ہوں کہ وہ میرے لیٹ ہونے کی وجہ سے کس قدر پریشان ہےں اور جونہی میں نظر آتا ہوں تو ماں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے انکی مسکراہٹ سے یہ بخوبی اندازہ لگا لیتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ کر کس قدرخوش جبکہ مجھے نہ پاکر وہ کس قدر پریشان رہتی ہےں اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے بھی لگا سکتے ہےں۔
 گزشتہ برس عید میلادالنبی کے موقع پر میں ماں کو بتائے بغیر اپنے دوستوں کے ہمراہ گھر سے باہر نکل گیایہی خیال تھا کہ تھوڑی دیرمیں واپس آجاو¿ں گا لیکن گلی محلے اوربازار اس طرح سجائے گئے تھے کہ میں ان میں کھو گیا دوستوں نے گھومنے پھرنے پر مجبور کیا اُنہوں نے کہا کہ آج چھٹی ہے اور بڑا مبارک دن بھی ،اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے کیوں نہ سیروتفریح کی جائے ، میں نے لاکھ سمجھایا کہ میں امی جان کوبتا کر نہیں آیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ تھوڑی دیر کی تو بات ہے اور ہم کونسا گھر بتا کر آئے ہیں۔ ویسے بھی ہم کونسا روز روز پروگرام بناتے ہیں۔ انہوں نے اپنی طرف سے مجھے پورا مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن میں اپنے گھر کے ماحول اور والدہ ماجدہ کی طبعیت سے اچھی طرح واقف تھا،لہذا میرادل مطمئن نہ ہواموبائل فون تھا اور نہ گھر بتانے کا کوئی اورذریعہ رہ رہ کر مجھے یہی خیال آرہا تھا کہ امی جان فکر مند ہوں گی۔ میں لمحہ بہ لمحہ اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ آخر گھر کیوں نہ بتایا ؟اس وقت میرا ایک ایک منٹ ایک گھنٹے کے برابر تھا پانچ چھ گھنٹے ادھر اُدھر گھومنے کے بعد دوستوں نے گھر کی راہ لی لیکن میرا دل ابھی بھی دھک دھک کررہا تھا۔اللہ اللہ کرکے گھر پہنچے۔توگھرکا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا،آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ماں گھر کے باہر کھڑی روروکر نڈہال ہوئے جارہی تھی جبکہ پورا محلہ میرے گھر کے باہر موجود تھا۔ ذہن میں یہی تھا کہ مجھے ڈانٹ پڑے گی لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا۔ماں مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکیں اور مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ مسجدوں میں اعلان کروائے جاچکے تھے۔ میری کلاس فیلوز کے گھروں میں میری گمشدگی کے بارے معلومات حاصل کی جا چکی تھیں۔میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس طرح کا ماحول بن جائے گا۔کچھ دیر بعد خاموشی چھائی، آنسو تھمے تو امی جان نے مجھے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ میں کس قدر پریشان تھا۔ میرا وقت بھی بڑی مشکل سے گزرا تھا۔ ماں نے مجھے کہا کہ ابھی تم بہت چھوٹے ہو۔ میں نے جواب دیا کلاس ہفتم کا طالب علم ہوں میں بڑا ہو چکا ہوں ماں نے کہا تم جتنے مرضی بڑے ہو جاو¿لیکن میرے لئے بچے ہی رہوگے۔ماں مسلسل نصیحتیں کررہی تھیں اور میں سن رہاتھا ان کا کہنا سو فیصد درست تھااور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری ماں نے ہمارے لئے کس قدر محنت کی اور کر رہی ہے جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ باپ کا سایہ سر پر نہیں۔ والدہ ماجدہ لوگوں کے گھروں میں کام اورکپڑے سلائی کرکے ہمارے پڑھائی کے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ صرف یہی نہیں میری ہر فرمائش پوری کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں، قومی تہوار ہوں یا مذہبی بہنوں کے مقابلہ میںمیری فرمائشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ عیدین کے موقع پرماں اپنے پہننے کے لئے نئے کپڑے بنائے یا نہ بنائے لیکن میرے اور میری بہنوں کے لئے نئے جوتے نئے کپڑے ضرور لے کر دیتی ہیں اس کے لےے انہیں دن رات محنت کرنا پڑتی ہے۔
مئی کے دوسرے ہفتے ماو¿ں کا عالمی دن ( مدر ڈے) منایا جاتا ہے اس موقع پر میں نے اپنی جیب خرچ سے تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کراس لئے رکھے ہیں کہ انہیں کوئی اچھا اور قیمتی تحفہ دے سکوں۔ اگر میرے بس میں ہو تو میں روزانہ اپنی ماں کو نت نئے کپڑے اور قیمتی تحفے لے کر دوں لیکن مجبور ہوں،ابھی چھوٹا ہوں اور زیر تعلیم ہوں مگر دلی خواہش یہ ہے کہ جلد از جلد بڑا ہوجاو¿ں اور روزانہ مدر ڈے منایا کروں میں ماں سے اکثر یہی کہتا ہوں کہ پیاری ماں دُعا کرو میں جلد بڑا ہو جاو¿ں۔

ای پیپر دی نیشن