شہر ہند ٹیپو سلطان آزادی اور بہادری کا وہ ستارہ ہے جس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑیگی۔ ٹیپو سلطان اپنوں کی غداری اور غیروں کی سازش کا شکار ہوئے۔ انکی انتظامی اور جنگی مہارت نے میسور کو مثالی ریاست بنا دیا تھا جو دیسی اور بدیسی حکمرانوں کی آنکھ میں کھٹکتی تھی۔ ٹیپو سلطان نے برطانیہ کے کم و بیش تمام جرنیلوں کو شکست دی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کا سبب وزیراعظم میر صادق اور وزیرخزانہ پورینا تھا جو برطانوی استعمار کیلئے انگریزوں کے دوست اور حلیف بن گئے تھے۔ پورینا نے عین لڑائی کے دوران میسوری فوج کو تنخواہ دینے کیلئے بلا لیا اور دشمن افواج کو محاذ جنگ میں موجود ٹیپو سلطان کی نشاندہی کردی۔ میرصادق اور اسکے ساتھیوں نے قلع کی کمزور ترین دیوار کی نشاندہی کی اور دشمن فوج قلعہ کے اندر داخل ہو گئی۔ درایں صورت ٹیپو سلطان کے وفادار سپاہی راجہ جان نے حملہ آور انگریز اور اتحادی افواج سے صلح کرکے جان بچانے کی تجویز دی جو ٹیپو سلطان نے یہ کہہ کر رد کر دی کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
نیز ٹیپو سلطان نے اپنے غدار وزراء کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’تمہاری اس غداری کے باعث تمہاری نسلیں پیاز کی گٹھی کو بھی ترسیں گی۔ یعنی تمہاری نسلیں غربت اور مہنگائی کے باعث بھوک‘ پیاس سے مریں گی۔‘‘ مملکت خداداد پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال نے مذکورہ غداری کو درایں اشعار قلمبند کیا ہے کہ …؎
جعفر از بنگال‘ صادق از دکن!
ننگ ملت‘ ننگ دیں‘ ننگ وطن
ایں جہاں بے ابتدا‘ بے انتہا مست
بندۂ غدار را مولا کجا است!
انگریز! اتحادی افواج نے ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی شہادت کے بعد حلیف غدار نسلوں کو یہ کہہ کر مار دیا کہ ’’یہ اپنوں کے نہ بن سکے تو ہمارے کیسے بن سکتے ہیں۔‘‘ ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ کی طرح دشمن کی قید پر موت اور شہادت کو ترجیح دی۔
نپولین کا نوحہ لکھتے ہوئے شعراء لکھا ہے کہ بے شک نپولین ایک عظیم حکمران ہے یہ ایک روشن ستارہ ہے جو قید کی تاریکی میں غرق ہو گیا اور اب کوئی دوسرا نپولین بننے کی خواہش نہیں کریگا کیونکہ نپولین کا انجام ناکامی اور نامرادی ہے۔ اسکے برعکس ٹیپو ایک زندہ تمنا کا نام ہے ۔
ٹیپو سلطان روشن دماغ‘ عالی حوصلہ‘ ہمت‘ جرأت‘ شجاعت اور دوراندیشی کا پیکر ہے۔ امریکی جنگی میوزیم میں ٹیپو سلطان کا نام میزائل سازی کے موجد میں لکھا ہے۔ ٹیپو سلطان کی تلوار برطانوی میوزیم کی زینت ہے۔ ٹیپوسلطان کا دور پُرآشوب ہے۔ مغل سلطنت ‘ ایرانی‘ تورانی یعنی شیعہ سنی چپقلش کے باعث کمزور سے کمزور تر ہو رہی تھی۔ دکن کے جنگجو مرہٹے‘ مغل فوج میں اس قدر منہ زور ہو چکے تھے کہ مغل شہنشاہ بھی انکے مرہون منت تھا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی دعوت پر افغان حاکم احمد شاہ ابدالی نے اپنے چند ہزار فوجیوںکے ساتھ 1761ء مین 3 لاکھ مرہٹہ فوج کو شکست دی اور تیسری پانی پت کی جنگ جیتی۔ گو ابدالی نے مرہٹوں کی کمر توڑ دی تھی مگر شکست خوردہ مرہٹے مسلمانوں کیخلاف انگریز کے حلیف بن گئے۔ ایرانی تورانی کشمکش میں ایرانی فکر و عمل کے حامی میر جعفر و میر صادق انگریز کے ساتھی بن گئے۔ مکار ہندو پہلے ہی مسلمانوں کا دشمن تھا اور ہے۔ انگریز کو مذکورہ تناظر میںوسیع تر اتحادی افواج جمع کرنے کا موقع مل گیا۔ ٹیپو سلطان نے اتحادی افواج کے منڈلاتے خطرات کیخلاف مزاحمتی علاقائی اور عالمی قوتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ نظام دکن یعنی نواب حیدر آباد میر نظام علی خان کو ملی وحدت و اخوت کا پیغام دیا جو انگریزوں کے اثر و رسوخ‘ دبائو اور دھمکی کی نذر ہو گیا۔ ٹیپو سلطان کی دعوت اور حمایت میں افغان حکومت زمان شاہ لاہور پہنچا تو انگریزوں کی ایما پر ایرانی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور اسے واپس جانا پڑا۔ خلافت عثمانیہ غیرملکی سازشوں کے باعث اندرونی خلفسار اور انتشار کا شکار تھی لہٰذا ٹیپو سلطان کی دعوت‘ حمایت کا مثبت جواب نہ ملا۔ ٹیپو سلطان نے برطانیہ اور فرانس کی باہم خونریزی کے تناظر میں نپولین کو مدد کیلئے لکھا‘ جواب مثبت تھا مگر اس وقت تک انگریز اور اتحادی ممالک ٹیپو سلطان کیخلاف غداروں اور سازشوں کا آپریشنل نیٹ ورک مکمل کر چکے تھے۔ گو ٹیپو سلطان کی فوج میں ایک فرانسیسی فوجی دستہ بھی شامل تھا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ مکار انگریز کو جلدی تھی کہ ٹیپو سلطان کو ناقابل تسخیر قوت بننے سے قبل ختم کر دیا جائے لہٰذا 4 مئی 1799ء کا یوم شہادت آن پہنچا اور انگریز جنرل ہیرس نے ٹیپو سلطان کی شہادت کے موقع پر کہا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے‘ ہم نے آخری مزاحمتی دیوار گرا دی اور 4 سال بعد انگریزی دلی پر قابض ہو گیا۔ ٹیپو سلطان کا نوحہ لکھتے ہوئے شاعر نے کہا تھا کہ …ع
’’سحر کا کام ملا اس کو ہائے شام کے وقت‘‘