67 سالہ پاکستان آج نہایت کڑے امتحان میں ہے اس میں ہر طرف سٹریٹ کرائمز ، بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، کرپشن کا بازار گرم ہے دھماکے، ڈاکے اور فاقے روز مرہ کا معمول قرار پا چکے ہیں۔ رہی سہی کسر پاکستان کی محافظ افواج کیخلاف انتہائی زہریلے پراپیگنڈے نے نکال دی ہے۔ پاکستان وہ مقدس سلطنت ہے جس کی تقریباً 97 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام کی بنیاد پر ہی پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد پر ہی افواج پاکستان دفاع پاکستان کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرتی رہی ہیں۔ حالیہ حکومت میں بھی کچھ مہینوں سے سول ملٹری تعلقات (Civil and Military Realations) کے لحاظ سے واضح تنائو دیکھا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ حکومت اور ملٹری ایک پیج (Page) پر ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کچھ وزراء کے بیانات کے لہجے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں کشیدگی اور ناراضگی موجود ہے۔ اسکی اندرونی وجوہات کیا ہے؟ یہ تو واضح نہیں ہے لیکن ایک بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے گزشتہ دس سال سے سیکورٹی فورسز نے جس حوصلہ اور بہادری کے ارض وطن کی حفاظت کیلئے کردار ادا کیا ہے حکومت کی طرف سے اس اعزاز اور احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا جیسے دیکھنا چاہئیے تھے بلکہ کئی مواقع پر دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کے شوق میں حکومت کی طرف ایسے بیانات داغے گئے اور ایسے فیصلے کئے گئے جس پر سیکورٹی فورسز کو اپنے ہزاروں جوانوں کی شہادت پر ایک بار پھر آنسو بہانے پڑے۔کچھ سیاسی اور مذہبی قائدین نے دہشت گردوں کیخلاف برسر پیکار فوج کی قربانیوں کی جب تضحیک کی تو حکومت نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کی جیسے حکومت کو فوج کے وقار سے کوئی سروکار نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت نہایت مقدس شعبہ ہے۔ اور پاکستان کے قیام اور بقا میں اہل صحافت کی خدمات کسی سے کم نہیں اور اب تک سو صحافیوں کی شہادت ایک بہت بڑا المیہ ہے لیکن سینئر صحافی حامد میر پر افسوسناک حملہ کے بعد جس طرح افواج پاکستان اور بالخصوص آئی ایس آئی کو نشانہ بنایا گیا۔ اہل وطن کے اذہان میں بھی اسکے کئی سوالوں نے جنم لیا ہے۔ لگتا ہے پاکستان گہری سازشوں کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ پاکستان کو اس وقت چیلنجوں اور چینلوں کا سامنا ہے کچھ آنکھوں کو ڈالر کی جھالر اور کچھ ریالوں کے بالوں کی وجہ سے پاک فوج کی قربانیاں نظر نہیں آرہیں ہیں اور کچھ حضرات پائونڈ کی وجہ سے بائونڈ ہو چکے ہیں۔ بندہ اہل وطن سے ان سطور کے ذریعے یہ ضرورت کہنا چاہتا ہے کہ ماضی کے چند جرنیلوں کے مخصوص کارناموں کی بنیاد پر پوری فوج پر زبان طعن درازنہ کی جائے یہ ٹھیک ہے جنرل ایوب خان کے دور میں میر جاوا سمیت بلوچستان کا ایک بڑا علاقہ ایران کے حوالے کر دیا گیا۔ جنرل یحیٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ضرب کاری لگی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اندرونی طور پر کلاشنکوف کلچر نے جنم لیا جو موجودہ دہشت گردی کی کوکھ قرار پایا اور بیرونی محاذ پر سیاچن گلیشئر پر بھارت نے قبضہ کر لیا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں خواتین بل اور کارگل کا صدمہ پہنچایہ حادثے بھلائے نہیں جا سکتے۔ مگر 67 سال سے پاکستانی سرحدوں کے اندر ہر کسی کی موج یقیناً فوج کی مرہون منت ہے۔ سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں اور چلچلاتی اور بھون دینے والی دھوپوں میں جب سب میٹھی گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں ائیر کنڈیشن کمروں میں خراٹے لے رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کے سرحدی بیلوں اور میدانوں میں، سندھ کے طویل ریگستانوں میں، خیبر پختونخواہ کی سنگلاح چٹانوں میں اور بلوچستان کے بے آب و گیاہ ویرانوں میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پہرہ دینے والے اسی پاک فوج کے جوان ہوتے ہیں۔ اپنی مائوں، بہنوں اور بیوی بچوں سے دور، اپنے گھروں، ڈیروں اور محلوں سے بعید، مادر وطن کی حرمت اور تقدس کی حفاظت کے لئے چناروں کی ٹہنیوں، پہاڑوں کی چوٹیوں اور مورچوں کی تنہائیوں سے دل لگا کر اپنا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ سیاچن کے منفی 40 سینٹی گریڈ موسم کے منجمد برف زاروں کو اپنے جذبوں کی حرارت سے شکست دیتے ہیں جو کفار کی فوج کو اسلامی سلطنت میں داخل ہونے سے روک کے کھڑا ہے اس کے لئے انعام کیا ہے۔سچ فرمایا رسول اکرمؐ نے کہ :
ایک دن اسلامی ملک کی سرحد کے پہرہ دینا دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہے۔
پاکستانی افواج اور مخصوص مزاج
May 07, 2014