(1) ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ میاں نواز شریف بنیادی طور پر سادہ لوح انسان ہیں بعض اوقات تو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ انکی سادگی پر باقاعدہ پیار آنے لگتا ہے۔ جب پچھلے دنوں حکومت نے پٹرول کی قیمت ایک روپیہ فی لٹر گھٹا کر اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالا تو میاں صاحب نے ببانگ دہل فرمایا۔ ’’اب ٹرانسپورٹروں کو کرائے کم کر دینے چاہیں۔‘‘ اب گوادر کیا گئے ہیں‘ اس مغموم اور مفلوک الحال قوم کو نئی نوید مسرت دے ڈالی ہے۔ عنقریب ہی گوادر کو ہانگ کانگ بنا دیا جائے گا۔ میاں صاحب نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سنگاپور اور دبئی کو بھی اس ’’مچھیروں کی بستی‘‘ کے سامنے دست بستہ لاکھڑا کیا ہے۔ ساتھ ہی وہاں محدودے چند لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔ ’’وزیراعلیٰ بلوچستان میرے دائیں ہاتھ کھڑا ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بائیں جانب ہے۔‘‘ ہم میاں صاحب کو مشورہ دیں گے کہ ڈاکٹر مالک کو چاہئے کہ کندھوں پر ہی کیوں نہ بٹھا لیں لیکن آرمی چیف کو ہمیشہ اپنے دائیں جانب رکھیں۔
(2) آج سے کافی عرصہ پہلے ڈی جی رینجرز جنرل حسین مہدی سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ کہنے لگے پرویز مشرف کا ایک کارنامہ گوادر میں ایک نیا بہت بڑا شہر بسانا ہے۔ اہل نظر ہمیشہ تازہ بستیاں آباد کرتے ہیں۔ عرض کیا۔ چاند آباد ہو جائے گا۔ گوادر وہ نہیں بن پائے گا جس کا لوگوں کو جھانسہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے قدرے حیرت اور غصہ بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ یہ تم کس بنا پر کہہ سکتے ہو۔ ’’کیونکہ میں نے وہاں سروس کی ہے۔ علاقے کی تاریخ اور جغرافیہ کا بنظر غاہر مطالعہ کیا ہے۔ نامور مورخ ARRAIN نے جس علاقے کے خدوخال کا تئیس سو سال پرانا نقشہ کھینچا تھا‘ اس نے وضعداری میں اپنی ہیت کو جوں کا توں رکھا ہے۔ ریت کی عمودی دیواریں جنہوں نے سکندر کی فوج کو ہلکان کر دیا تھا‘ اب بھی تن کر کھڑی ہیں۔ حشرات الارض جنہیں دیکھتے ہی سپاہ کے چہرے زرد پڑ جاتے تھے اب بھی آپس میں سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ ویرانی جو سکندر کی روح تک جا پہنچی تھی اب بھی اس علاقے پر حکمرانی کرتی ہے۔ خوراک کی کمی کا مسئلہ جو ہزاروں سال پہلے پیدا ہوا تھا‘ اب ماشاء اللہ پل کر جوان ہو گیا ہے۔ تمام شہر کی آبادی کو ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ مکانوں کے اندر‘ دکانوں کے باہر‘ گلیوں کے بیچوں بیچ‘ سڑک کے دائیں بائیں ریت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ حضرت عثمانؓ کو حکم بن جبل التلعدی نے ویسے تو نہیں کہا تھا پانی بہت کم ہے۔ پھل کڑوا ہے اور چور زیادہ ہیں۔ پانی کی کمی کا اب بھی مسئلہ ہے‘ پھل محض صبر کا دستیاب ہے۔ چوروں کی جگہ دہشت گردوں نے لے لی ہے۔ پرویز مشرف کو مشورہ دیں کہ علاقے میں غربت ختم کرے۔ روزگار فراہم کرے اور بالخصوص تالیف قلوب کی کوشش کرے۔ جہاں معیشت دم توڑ رہی ہو غربت ہاتھ جوڑ رہی ہو وہاں نام و نمود کی نہیں۔ DOWN TO EARTH اپروچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسے پراجیکٹ کی تعمیر جس میں خرابی کی کئی صورتیں مضمر ہوں‘ قومی دولت کا ضیاع ہے۔ تمام بلوچ رہنما بوجوہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں عطاء اللہ مینگل پیش پیش ہے۔
(3) میاں نواز شریف خوش فہم انسان ہیں۔ ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ مسند اقتدار پر قدم رکھتے ہی اعلان فرمایا۔ کراچی میں انڈر گراؤنڈ ریلوے چلے گی۔ کراچی کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر کھٹ کھٹ کرتی ہوئی بلٹ ٹرین دوڑے گی۔ اندھیروں کو مار بھگائیں گے۔ ہر گھر بقعہ نور نظر آئے گا۔ چین کے ساتھ چھبیس کے قریب MOU'S بھی سائن کئے۔ پتہ نہیں ان کا کیا بنا ہے لیکن چھوٹے میاں صاحب نے چین کی طرف سے بتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید مسرت سنا ڈالی ہے۔ کاش یہ بھی بتا دیتے کہ اس میں عرصہ کتنا درکار ہو گا۔ ایک سال‘ دو سال‘ دس سال آہ کواک عمر چاہئے اثر ہونے تک! ہمارے ڈار صاحب بھی بھلا یہاں پیچھے رہنے والے ہیں۔ فارن ایکسچینج پچاس ارب ڈالر تک لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔ صاف گو انسان ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے پندرہ سال کی مہلت مانگی ہے۔ گویا ایفائے عہد کا تقاضہ ہے کہ قوم کو ن لیگ کو اگلے تین چار الیکشن میں ووٹ دینا ہو گا۔ یہ کوئی اتنی ’’کڑی‘‘ شرط نہیں ہے۔ جو لوگ گذشتہ چھیاسٹھ سالوں سے منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اگر مزید دس پندرہ سال سر پٹک لیں تو کیا فرق پڑے گا؟
(4) ویسے میاں صاحب کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہانگ کانگ کو بننے اور سنورنے میں سو سال سے زیادہ وقت لگا ہے۔ اس کے فارن کرنسی ریزرو 316 ارب ڈالر ہیں۔ ہمیں امریکہ سے ایک ارب ڈالر لینے کے لئے سارا سال ناک رگڑنا پڑتی ہے۔ ہماری مثال اس گدائے بے نوا کی سی ہے جسے دن کی روٹی مل جائے تو رات کے کھانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ہانگ کانگ کے سکائی اسکریپر امریکہ کے مین ٹن کو شرمانے میں پورے پاکستان میں کوئی ایک عمارت بھی ایسی نہیں ہے جو اس کی ہزاروں بلند بانگ عمارتوں کے ٹخنوں تک بھی پہنچتی ہو۔
(5) البتہ ایک بات کا کریڈٹ اس حکومت کو دینا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اگر چند گھنٹے بھی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو لوگ احتجاجاً سڑکوں پر نکل آتے تھے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کر دیتے تھے۔ انکی آپس اور نالے فلک تک جا پہنچتے تھے۔ ذرا ذرا سی ناجوازیوں پر صدائے احتجاج بلند ہوتی تھی۔ غلط تقرریوں پر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے تھے۔ لوٹی ہوئی قومی دولت کا لندن کے ’’جوا‘‘ خانوں اور سیرڈز سٹور تک پیچھا کیا جاتا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہر راز طشت ازبام کر دیا کرتا تھا۔ وزیراعظم گیلانی کو ارمانی کا سوٹ پہن کر بھی برہنگی کا گمان ہوتا تھا۔ اور اب! راوی چین لکھتا ہے۔ حکومت کے پاس ایسا عجیب سا سفوف ہے جس نے اذہان کو ماؤف کر دیا ہے۔ لوگوں کو ’’ابدی چین اور سکون‘‘ دیا ہے۔ نہ صدائے احتجاج۔ نہ عرض غم۔ نہ حکایتیں نہ شکایتیں لگتا ہے قلم کی سیاہی خشک ہو گئی ہے زبان کٹ گئی مدح ستم گراں کرتے۔ ضمیر بک گئے اسباب مفلساں کی طرح۔