اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے اور یو ٹیوب پر پابندی ختم کرنے کی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی ہیں۔ ایوان میں تھیلسیما کے مریضوں کے رشتہ داروں کیلئے لازمی خون ٹیسٹ بل 2014ئ، نظام تحفظ بچگان بل 2014ئ، دہشت گردانہ کارروائیاں کی روک تھام، خصوصی عدالتیں ترمیمی بل سمیت کئی بل پیش کر دئیے گئے۔ دینی جماعتوں اور اقلیتی ارکان کی جانب سے مشترکہ طور پر غیر مسلموں سے شراب رکھنے اور بنانے کا آئینی استثنٰی واپس لینے کیلئے آئین میں ترمیم پیش کی گئی جسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ اجلاس کے دوران حکومتی رکن بیگم طاہرہ بخاری نے قرارداد پیش کی کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ حکومت وفاقی سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے فوری اضافہ کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ پے اینڈ پنشن کمشن قائم ہے، پہلے بھی افراط زر کے تناسب سے کہیں زیادہ تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا، ہمیں آمدنی اور وسائل کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ بجٹ کے آنے تک اس قرارداد کو مؤخر کیا جائے۔ رائے حسن نواز نے کہا کہ قرارداد لانے کا مقصد یہی ہے کہ بجٹ آنے والا ہے، حکومت کو چاہئے کہ تنخواہوں میں اضافہ کرے۔ عائشہ سید نے کہا کہ مہنگائی میں اضافہ کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھ رہیں اگر صورتحال یہی رہی تو کرپشن میں اضافہ ہو گا۔ سلمان بلوچ نے کہا کہ اس ایوان کے تمام ارکان مڈل کلاس سے ووٹ لے کر منتخب ہوئے ہیں، ہمیں ان کا حق نمائندگی ادا کرنا چاہئے۔ جمشید احمد دستی نے کہا کہ تنخواہوں کے معاملے پر وزیر خزانہ کا موقف سامنے آگیا ہے، غریب آدمی کا گزارہ بہت مشکل ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ملازمین کو امید ہے کہ بجٹ میں ان کی تنخواہیں بڑھیں گی۔ کم از کم 50 فیصد اضافہ کیا جائے۔ طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں چادر دیکھ کر پلاؤں پھیلانے چاہئیں۔ ساجد احمد نے کہا کہ پرائیویٹ اور سرکاری تمام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔ شازیہ مری نے کہا کہ غریب آدمی کے لئے گھر کا بجٹ بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ وزیر خزانہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔ تنخواہیں بڑھانے کی تجویز دینے والوں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ ہم وسائل کہاں سے لے کر آئیں۔ 37 کھرب کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائیگا۔ یو ٹیوب سے پابندی ختم کرنے کی قرارداد پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے پیش کی تھی۔ گذشتہ سیشن سے جاری قرارداد پر مزید بحث کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہم نے یو ٹیوب کے حوالے سے ایک قرارداد ایوان میں پیش کی تھی اس پر اب تک حکومت نے کیا پیشرفت کی ہے۔ یو ٹیوب کو فلٹر لگا کر کھول دیا جائے اس سے تعلیم اور دیگر شعبوں کے طالب علموں کا حرج ہو رہا ہے۔ وزیر مملکت برائے نیشنل ریگولیشن سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس معاملہ پر تمام جماعتوں کے ارکان بیٹھ کر اجتماعی ذمہ داری لیں اور اس کے کھولنے کا طریقہ تلاش کریں اس بارے میں ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یو ٹیوب پر پابندی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہی عائد کی گئی، ہم پوائنٹ سکورنگ نہیں چاہتے۔ تقریروں سے یو ٹیوب نہیں کھلے گی۔ حکومت یو ٹیوب کھولنے کے حق میں ہے۔ چودھری محمد اشرف نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، قواعد کے تحت اسے ایوان میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ بعدازاں ایوان نے قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔ تحریک انصاف کے ارکان نے (ن) لیگ کے رکن کی جانب سے خیبر پی کے حکومت کو بجلی چور کہنے پر شدید احتجاج کیا اور ڈپٹی سپیکر کی جانب سے نکتہ اعتراض کا جواب دینے کا موقع نہ ملنے پر اجلاس سے واک آؤٹ اور کورم کی نشاندہی کرنے کی دھمکی دے کر وقت حاصل کیا اور مطالبہ کیا کہ اس کے خلاف بجلی چور کا لفظ واپس لیا جائے جبکہ پی پی پی کے عبدالستار بچانی پوائنٹ آف آرڈر نہ ملنے پر (ن) لیگ کے شیخ روحیل اصغر کے روکنے کے باوجود احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پی آئی اے کا 38ارب روپے کا خسارہ ورثہ میں ملا ہے، 25جہاز رہ گئے ہیں جن سے فلائٹ آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے، اس لئے ملک میں بعض بکنگ دفاتر بند کئے گئے ہیں۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کو اس معاملے میں دہرا معیار اختیار نہیں کرنا چاہئے، سندھ بلوچستان اور خیبر پی کے کو غلط پیغام جائے گا۔ وزیر مملکت نے کہا کہ حکومت بے روزگاری نہیں چاہتی، سٹیل ملز اور پی آئی اے سمیت تمام قومی ادارے بہتر انداز میں لیں گے۔ نئے جہاز آنے سے صورتحال بہتر ہو گی، وزیراعظم نے انٹرنیشنل روٹ پر چلانے کے لئے پانچ نئے جہاز لینے کی ہدایت کی ہے، پی آئی اے بکنگ آفس سے متعلق ارکان کے مطالبات جائز ہیں۔