اپنی پالیسی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں‘ کسی کو نظریہ پاکستان پر حاوی نہیں ہونے دینگے: ڈاکٹر مجید نظامی

May 07, 2014

لاہور (خصوصی رپورٹ) ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ہے کہ ہم کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی پالیسی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا کے طالب علموں کے سوالوں کے تناظر میں کہی۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا میڈیا سٹڈیز کے طالبعلموں کے وفد ڈاکٹر عارفہ صبح خان کی قیادت میں ڈاکٹر مجید نظامی سے خصوصی ملاقات اور نوائے وقت گروپ کے دفاتر کے مطالعاتی دورے پر آیا تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ فوج کے لئے جان اور مال دونوں حاضر ہیں۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چار آمروں کو بھگت چکے ہیں اور اب انہیں آمروں سے ڈر لگتا ہے نہ مارشل لا سے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ عمران خان وزیراعظم بن سکیں گے یا نہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ حامد میر کو بھی جانتے ہیں اور ان کے والد کو بھی جانتے ہیں۔ جیو اور آئی ایس آئی کا معاملہ اب پیمرا میں ہے۔ ڈاکٹر عارفہ صبح خان کے ساتھ 24 رکنی وفد نے ایڈیٹر انچیف نوائے وقت سے ایک گھنٹہ ملاقات کی۔ ایک طالبعلم نے سوال کیا آپکے حوالے سے یہ بات مشہور ہے آپ میاں برادران کے لئے نرم گوشہ رکھتے اور مسلم لیگ ن کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟ ڈاکٹر مجید نظامی نے مسکرا کر کہا یہ خام خیالی ہے۔ لوگ ایسا سمجھتے ضرور ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ میرے لئے اخبار کی پالیسی کی زیادہ وقعت ہے۔ میں آج بھی نوائے وقت میں جم کر کام کر رہا ہوں اور جس بات کو ٹھیک سمجھتا ہوں، وہی کرتا ہوں۔ ایک اور طالبعلم نے سوال کیا کیا ایک اور مارشل لا آنیوالا ہے؟؟ ڈاکٹر مجید نظامی نے جواب دیا ہمارے نئے طالبعلم مارشل لا کا ذکر سن سن کر مارشل لا زدہ ہو گئے ہیں۔ اسی لئے انہیں جمہوریت کے مقابلہ میں مارشل لا بہتر لگ رہا ہے۔ میں تو مارشل لا کے حق میں بالکل نہیں ہوں۔ مارشل لا کمزور جمہوریت اور نااہل قیادت کی وجہ سے آتا ہے مگر میں پھر کہوں گا جمہوریت بہرحال مارشل لا سے بہتر ہے خواہ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو۔ ڈاکٹر عارفہ صبح خان نے پوچھا کیا موجودہ حکومت کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں؟ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا موجودہ حکومت کی کارکردگی تسلی بخش ہوتی تو یہ سوال وجود میں نہ آتا اور نہ لوگ سڑکوں پر نکلتے۔ مسلم لیگ ن نے مایوس کیا ہے۔ انہوں نے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے اور اب بھی جو بیان دیتے، تقریریں کرتے اور باتیں کرتے ہیں تو 8 سال بعد کی بات کرتے ہیں جبکہ ان کی حکومت چار سال کی باقی ہے۔ بات آج کی کرنی چاہئے، کل کی بات کل کریں۔ ماضی یا مستقبل پر معاملات چھوڑ کر ’’آج‘‘ کو فراموش کرنا عقلمندی نہیں۔ ہم آج میں زندہ ہیں اور آج کے متعلق سوچنا زیادہ ضروری ہے۔ 8 سال بعد کیا ہو گا اور کون ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے مزید کہا ایسے حالات سے گریز کرنا چاہئے جو مارشل لا کو دعوت دیتے ہیں۔ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے تو ظاہر ہے مارشل لا آسکتا ہے۔ راحیل شریف ایک شہید کے بھائی ہیں انہوں نے آئین اور جمہوریت کی بات کی ہے۔ راحیل شریف کے متعلق اچھی رپورٹس ہیں۔ ہم فوج کو عزت اور محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس ادارے پر اعتماد ضروری ہے۔ ہم اپنی فوج سے پیار کرتے ہیں اور انہیں چاق و چوبند سرحدوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ اس سوال پر کہ کیا موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی؟ انہوں نے کہا اس کا انحصار سراسر کارکردگی پر ہے۔ اس سوال پر کہ پاکستان کو اندرونی و بیرونی سطح پر کمزور اور تنہا کیا جا رہا ہے۔ کیا اس سے پاکستان کا وجود خطرے میں نہیں؟ ڈاکٹر مجید نظامی نے جواب دیا تمامتر حقائق کے باوجود پاکستان کمزور نہیں۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی سے مالا مال ہے۔ خدا نے کہا ہے دشمنوں کے خلاف گھوڑے تیار رکھو۔ ہمارے گھوڑے بھارت کے گدھوں سے ہزار گنا بہتر ہیں۔ اس سوال پر کہ پاکستانی لیڈروں میں حب الوطنی کا فقدان ہے، ان کے اثاثے بیرون ممالک ہیں۔ انہوں نے کہا عوام میں حب الوطنی کی کمی نہیں۔ بیشک ہم اچھی لیڈر شپ کے لئے ترس گئے ہیں۔ حب الوطنی سے اچھی لیڈر شپ مل سکتی ہے لیکن لیڈر شپ کی حب الوطنی اپنے وزیراعلیٰ، ایم این اے، ایم پی اے کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے جب ان کے عیب اور غلطیاں چھپا لی جاتی ہیں۔ جس طرح لفافہ جرنلزم کی وبا پھیلی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لفافے پکڑ لو، پتہ نہیں کہ کل لفافہ رہے نہ رہے۔ ایک طالبعلم نے سوال کیا چند روز پہلے جو جنگ گروپ کا انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے منفی رویہ تھا اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟  ڈاکٹر مجید نظامی نے برجستہ کہا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ حقائق سامنے آرہے ہیں۔ جیو نے آئی ایس آئی پر خود ہاتھ ڈالا ہے اور خود جنگ چھیڑی ہے مگر یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ جیو نے اس طرح میڈیا کیلئے نئے مسائل چھیڑ دئیے ہیں۔ وارث میر نوائے وقت اس لئے چھوڑ گئے تھے کہ انہیں پالیسی کے مطابق کام کرنا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے ڈاکٹر عارفہ صبح خان کے پالیسی پر استفسار کے حوالے سے کہا ’’پالیسی‘‘ نے ہی نوائے وقت کی ساکھ اور عزت کو ہر نئے زمانے میں طاقت بخشی ہے۔ انہوں نے کہا امن کی آشا کا خواب دیکھنے والے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ہمارے ہوتے ’’امن کی آشا‘‘ نہیں ہو سکتی۔ ہم نے نظریہ پاکستان اور اپنے تشخص پر کسی کو حاوی نہیں ہونے دینا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کئی بار ہم نے اشتہارات کی بندشیں برداشت کیں اور شکوہ نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا مجھے گورنر شپ اور صدارت کی پیشکش ہوئی لیکن میں نے یہ آفرز قبول نہ کیں کیونکہ میں صحافت کے لئے پیدا ہوا ہوں، صدارت کے لئے نہیں۔ مجھے جونیجو نے ’’قائد محترم‘‘ کہا تو میں نے جواب دیا پاکستان کا… اور میرا صرف ایک قائد ہے وہ ہے قائداعظمؒ۔ میں نے زندگی بھر محنت کی ہے اور محنت کا پھل کھایا ہے۔

مزیدخبریں