پاکستان حال ہی میں ایک بہت بڑی کامیابی سے ہمکنار ہورا جب ا س کا سمندری حدود میں اِضافے کا دیرینہ مطالبہ اقوامِ متحدہ نے متفقہ طورپر منظور کرلیا۔ 1995میں پہلی بار پاک بحریہ نے ہی مُلکی حکمرانوں اور دِیگر متعلقہ اِداروں کی توجہ کا نٹی نینٹل شیلف کی طرف مبذول کروائی۔ تاہم اپریل 2009میں پاکستان نے باقاعدہ طور پر یہ کیس کانٹی نینٹل شیلف کی حدود متعین کرنیوالے اقوامِ متحدہ کے کمیشن میں رِجسٹرڈ کروایا۔
پاک بحریہ نے مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے،نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنوگرافی اور وزراتِ سائنس اورٹیکنالوجی کے اِشتراک سے پاکستان کے حق میں ایک بہت مضبوط کیس تیار کیا۔ پاکستانی تکنیکی مندوبین اور اقوام متحدہ کے کمیشن کے درمیان اگست 2013کے بعد اِس مقصد کیلیے بہت سی ملاقاتیں اور طویل بحث ومباحثے ہوئے۔ 10مارچ 2015کو اقوامِ متحدہ کے مکمل 21رُکنی کمیشن کے سامنے پاکستان نے اپنا حتمی مؤقف پیش کیا۔ سوالات کے تسلی بخش اور مثبت جوابات، پُراثر اور زور دار دلائل کی بدولت کمیشن نے یہ کیس مُتفِقہ طور پر پاکستان کے حق میںمنظور کرلیا۔
اِس مطالبے کی منظوری کے ساتھ پاکستان اپنی سمندری حدود میں اِضافہ کروانے والا شمالی بحرِ ہِند کاپہلا مُلک بن گیاہے۔ یہ پاکستان کے لیے معاشی ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کے آغاز کا عندیہ ہے۔ پاکستان کے حق میں اِس کیس کے فیصلے کی رُو سے پاکستان کی سمندری حُدود 200سے 350ناٹیکل میل ہو گئی ہیں، پاکستان کے سمندری رقبے میں کل 50,000مربع کِلو میٹر کا اِضافہ ہوا ہے۔ اِس اِضافی علاقے میں سمندر کی تہہ تک پائے جانے والے وسائل کے اخراج اور تصرف پر پاکستان کو پُورا حق حاصل ہوگا۔ پاکستان کا کُل بحری علاقہ240,000مربع کلومیٹر سے 290,000 مربع کلومیٹرہو جائے گا، جو کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے بعد دوسرے نمبر پر بڑا علاقہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کا سمندری قوانین پر بننے والا کمیشن 1973 سے 1982 تک ساحل اور جزیروںپر مشتمل ممالک کی سمندری حدود بڑھانے کے حوالے سے ہونیوالے مباحثوں کا نتیجہ ہے۔ اِس قانون کو ’ سی ٹریٹی‘ بھی کہا جاتا ہے۔UNCLOS-82 کو10دسمبر 1982کو منظور کیا گیا اور 16نومبر1994 کواِس پر عمل درآمد شروع ہوا۔ اکتوبر 2014تک پاکستان سمیت 166ممالک UNCLOS-82کا حصہ بن چکے ہیں۔
یہ کنونشن جو کہ سمندروں کے آئین کی حیثیت رکھتا ہے ایک بنیادی قانونی آلہ ہے جس سے دنیا کی سمندری حدود میں نافذ مشترکہ قوانین کو سہارا دیا جاتا ہے۔ یہ بر اعظموں ، سمندروں اور آبناؤں پر حکمرانی اور سمندر کی گہرائی میں کان کنی کے لیے ایک جامع فریم ورک متعین کرتا ہے۔ UNCLOS 82 سمندر کی حدود، اُن حدود میں موجود ریاستوں کے حقوق اور ذمہ داریاں ، ملکوں کے دائرہ اختیار کی حدود اور اُن حدود سے آگے موجود معدنی وسائل کے انتظامات کو واضح کرتا ہے۔ اس کنونشن کی دفعات میں موجودہ قوانین اور طرز عمل شامل ہیں جنھیں روایتی بین الاقوامی قوانین سمجھا جاتا ہے۔ یہ کئی جہتوں کی وضاحت کرتا ہے جیسا کہ بحر نوردی اور معاشی حقوق ، سمندروں کی آلودگی، آبی حیات کا تحفظ ، سائنسی ریسرچ، زمین سے گھرے ممالک اور جغرافیائی طور پر پسماندہ ممالک کے حقوق اور قذاقی وغیرہ۔
مزید برآں UNCLOS 82 تنازعات کے حل کے لیے متبادل طریقے اور خصوصی معاہدوں ، اداروں اور سرگرمیوں کے قیام کے لیے امداد بھی مہیا کرتا ہے۔ گہرے پانیوں میں مچھلیوں کے اسٹاک سے متعلق کنونشن جسے اقوام متحدہ کا ـ ’ فش اسٹاک اگریمنٹ‘ کہتے ہیں ، سی بیڈ میں موجود معدنیات کے انتظام کے لیے بننے والے انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی کے امور ، انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے تحت سیکیورٹی اور ماحولیات کے معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے بنایا گیا بیسل (Basel) کنونشن جس کے تحت مضر فضلہ جات کی بین السرحدی نقل و حرکت کو روکنا ، فضلہ جات کو ٹھکانے لگانا یا پرولیفیریشن سیکیورٹی انیشیٹیوکے تحت سیکیورٹی کے لیے کی گئی شراکت داریاں اس کی چند مثالیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 ساحلی ممالک ہیں۔ UNCLOS 82 کے تحت ہر ساحلی ملک کے پاس سمندر میں اپنی زمینی سرحد سے 12ناٹیکل میل تک کا علاقہ سرحدی زون کے طور پر ، 24ناٹیکل میل کا علاقہ ملحقہ زون کے طور پر جب کہ 200ناٹیکل میل تک کا علاقہ خصوصی اقتصادی زون کے طور پر ہوتا ہے۔ بحری سرحدی زون تمام تر قانونی معاملات میں کسی بھی ملک کی سرحدوں کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ ہر قسم کے جاندار اور غیر جاندار وسائل کی دریافت ، استعمال، توسیع ، انتظام اور حفاظت کا کام اور ساتھ ساتھ لہروں، ہوا، پانی کے بہاؤ اور سورج سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبے اس علاقے میں کیے جا سکتے ہیں۔ غیر ملکی بحری بیڑے اس علاقے سے بغیر نقصان پہنچائے گزرنے کا حق مانگ سکتے ہیں ۔ UNCLOS 82 کے تحت بین الاقوامی آبناؤں سے گزرنے کا حق اور خصوصی اقتصادی زون میں گہرے پانیوں کی طرح آزادی کا حق بھی محفوظ ہے۔
پاکستان سمندری قوانین پر اقوام متحدہ کی قرار داد(UNCLOS-82) پر 26فروری 1997ء کو دستخط کرنے والا 113واں ملک بن گیا۔ پاکستان پر اس قرارداد کا نفاذ 28مارچ 1997ء سے ہوا۔ UNCLOSکی شقوں کے مطابق اقوام متحدہ نے بھی کانٹی نینٹل شیلف کی حدود سے متعلق ایک کمیشن قائم کیا۔ UNCLOS-82کی شق 76کے مطابق کانٹی نینٹل شیلف سمندر کا وہ علاقہ ہے جس کے غیرجاندار وسائل اور تہہ میں موجود مخصوص ساکن سمندری حیات کے استعمال کا وہ ملک پورا حق رکھتا ہے۔
پاکستان کا پورا سمندری علاقہ قدرتی وسائل سے بھر پور ہے۔ پاکستان کی موجودہ ماہی گیری اور سمندری خوراک کاکل تخمینہ تقریبا 1.2ارب امریکی ڈالر ہے جس میںبر آمدات سے حاصل ہونے والا اندازاً 240ملین امریکی ڈالر سالانہ کا زر مبادلہ بھی شامل ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں اس صنعت کا حصہ تقریبا 1فیصد ہے۔ علاوہ ازیں حیاتیاتی وسائل جیسے الجی(سمندری گھاس)، مینگرووز اور متعدد اقسام کی مچھلیاں بھی پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ساحلی علاقوں کی آباد ی کے روزگار اور معیشت براہ راست ان وسائل سے جڑی ہوئی ہے۔ بحر ہند میں پائے جانے والے ہائیڈروکاربن اور قابل استعمال معدنیاتی ذخائر کا حجم پورے براعظم میں موجودوسائل سے کہیں زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سمندری تہہ میں موجود وسائل جیسے لوہا، مینگنیز نوڈیولز اور کرسٹ ، تیل ، گیس اور گیس کے ہائیڈریٹس شامل ہیں جو توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ سمندر میں پولی مٹیلک نوڈیولز، معدنیات سے بھر پور چھوٹی چٹانیں موجود ہیں جن میں نکل، کوبالٹ، لوہا اور مینگنیز پائے جاتے ہیں۔ کانٹی نینٹل شیلف معاملے کے پاکستان کے حق میںفیصلے سے پاکستان کو اس خطے میں واضح اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ شیلف کی اوپری اور نچلی سطح کی نقشہ نویسی اور جامع جیولوجیکل سروے مکمل ہوچکا ہے ۔ اس کی بدولت پاکستان بھرپور معاشی فوائد حاصل کرے گا۔
کسی بھی ملک کے بحری مفادات کے تحفظ کی سب سے بڑی محافظ اُس ملک کی بحریہ ہی ہوتی ہے۔ ایک بنیادی فرق جو بحری قوت کو ہوائی اور زمینی طاقت سے ممتاز کرتا ہے، یہ ہے کہ بحریہ عسکری اہلیت کے ساتھ ساتھ سمندر میں معاشی معاملات کا بھی خیال رکھتی ہے جبکہ دیگر دو قوتیں محض عسکری طاقت کا مظہر ہیں۔ آج کے دور میں جہاں سمندروں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ایک مضبوط اور متحرک بحریہ دُنیا بھر کیلیے ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔
پاکستان کو میری ٹائمز سیکٹر میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنا پڑے گی خاص طور پر مُلک کے بڑھتے ہوئے بحری مفادات کی حفاظت کے لیے پاک بحریہ میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
بحر ہند میں پاکستانی حدودمیں اضافہ!
May 07, 2015