جوڈیشل کمیشن اور تحریک انصاف

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جس شدت سے 2015ء کو الیکشن کا سال قرار دے رہے ہیں اس پر سب حیران ہیں۔ بظاہر جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے علاوہ کوئی صورت نظر نہیں آتی جس کے سبب مڈٹرم الیکشن کا انعقاد ممکن ہو۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ سیاسی بیان سے بڑھ کر کچھ نہیں جس کا مقصد اپنی پارٹی کے مورال کو عوام میں بلند رکھنا ہے لیکن یہ دلیل نہایت کمزور اور سمجھ میں آنیوالی نہیں۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور 125 دن کے دھرنا پر مبنی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بننے والے جوڈیشل کمیشن کو پاکستان کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ ماضی میں ہمیشہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن تحریک انصاف جیسی سیاسی جدوجہد اور موقف پر ڈٹ جانے کی روایت نہ تھی۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد ملکی تمام بڑی سیاسی جماعتوں سمیت 23 جماعتیں جوڈیشل کمیشن میں 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ثبوت اور موقف پیش کر چکی ہیں جو کہ حکومت کیلئے کوئی اچھی نوید و شروعات نہیں ہے۔ ملک کی اکثریتی جماعتوں کے جوڈیشل کمیشن کے سامنے دھاندلی کیخلاف پیش ہونے سے حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ تحریک انصاف نے جوڈیشل کمشن کے سامنے دھاندلی کو ثابت کرنے کیلئے جامع حکمت عملی ترتیب دی ہے جہاں ملک کے قابل قدر وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں وہاں سر اسحاق خاکوانی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی ہے جنہوں نے ثبوتوں اور شواہد کو عدالت میں پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں لگ بھگ 76 حلقوں کے متعلق معلومات، بے ضابطگیاں، قوانین کی خلاف ورزیاں اور دھاندلی کے ثبوت عدالت میں پیش کئے ہیں۔ عمران خان یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے ہر دو صورت میں انکی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ اگر فیصلہ عمران خان کے حق میں آ جاتا ہے تو پاکستان میں دھاندلی کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیگا۔ دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح عوام کے ووٹ سے ہی سیاسی پارٹیاں برسر اقتدار آیا کریں گی۔ کمیشن کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیئے جانے کی صورت میں حکومت کو مستعفی ہونا پڑیگا اور ملک میں نئے الیکشن کرانا پڑینگے جس سے تحریک انصاف کو اخلاقی فتح حاصل ہو گی اور آنیوالے انتخابات میں تحریک انصاف کو مسلم لیگ کیلئے روکنا مشکل ہو جائیگا جو کہ ابھی تک عمران خان کا ہدف نظر آتا ہے۔ گویا کپتان نے اپنی فطرت اور عادت کیمطابق اس میچ کو فیصلہ کن بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور ماضی کی طرح جارحانہ حکمت عملی اختیار کی ہے۔ ماضی میں عمران خان نے ہمیشہ وہ کام کئے جو تاریخ میں انکے نام سے جانے جائینگے۔ اگرچہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی سمت، نیا قانون و رواج ڈالنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن بہر حال عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر کو متعارف کروانے سے لیکر پاکستان میں پرائیویٹ کینسر ہسپتال، نمل یونیورسٹی اور پھر تحریک انصاف میں گراس روٹ لیول تک پارٹی الیکشن کروا کر اپنی اس روایت کو برقرار رکھا۔ عمران خان ہر بار بڑا رسک لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ جس سے ان کو اسی موقف کی تائید حاصل ہوئی کہ ہار کے خوف سے کھیلنے والا کبھی میچ نہیں جیت سکتا۔ اس دوران کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں ن لیگ کی برتری سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو کچھ دبائو ضرور محسوس ہوا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ راولپنڈی اور لاہور کے نتیجے آپس میں گروپنگ کا نتیجہ ہے۔ بہر حال عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ تحریک انصاف منظم پارٹی نہیں بن سکی اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ تنظیمی طور پر کچھ تبدیلیوں پر ذہنی طور پر متفق نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے قریبی رفقاء کی ان باتوں میں بڑا وزن ہے کہ 18 سال کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں مقبولیت حاصل کرنیوالی پارٹی کی مقبولیت کو تنظیم سازی نہ ہونے کی بنیاد پر رسک پر نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے اگر اپنی پارٹی کو لیبارٹری بننے سے بچا لیا تو آئندہ الیکشن تک مقبولیت برقرار رکھنا ممکن ہو گا۔ سیاسی جماعتیں ملک اور قوم کا اثاثہ ہوتی ہے اور چاروں صوبوں کی جماعت ملک کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے اسلئے عمران خان کی قیادت کا امتحان یہ ہے کہ وہ کس طرح ان شفاف مگر مقبول با اثر نوجوان لیڈروں کو آگے لاتا ہے جو اپنی ’’میں‘‘ سے بالا تر ہو کر سیاسی عمل میں حصہ لیں کیونکہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ کچھ بھی ہو تحریک انصاف کو دونوں صورتوں میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے اور کامیابی کیلئے میرٹ کے دریا عبور کرنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن