"Home Delivery of Democracy!"

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کِیا ہے کہ ”لاہور کے حلقہ این اے 125 کے ضمنی انتخاب میں میری اہلیہ امیدوار نہیں ہونگی“۔ انہوں نے کہا کہ ”ریحام خان صرف سماجی و بھلائی کے کام کریں گی، سیاسی نہیں انہیں پی ٹی آئی میں کوئی عہدہ بھی نہیں دِیا جائے گا۔“

رُجعت پسند عمران خان؟
مغربی معاشرے میں اور کئی سال سے ہمارے معاشرے میں بھی (کم از کم) تعلیم یافتہ بیوی کو "Better Half" (نصف بہتر) کہا جاتا ہے۔ حکمران فوجی ہو جمہوری تو اُس کی اہلیہ کو ” خاتون اوّل“ کہا جاتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو جنابِ آصف زرداری ”مردِ اول“ کہلاتے تھے۔ قائداعظم کی ہمشیرہ، محترمہ فاطمہ جناح نے قیامِ پاکستان کے لئے اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ جدوجہد کی تھی لیکن انہوں نے اپنی ہمشیرہ کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو ”خاتونِ پاکستان“ کہا جاتا تھا۔ جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں مجاہدِ تحریکِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ”مادرِ ملت“ کا خطاب دے کر صدر ایوب خان کے مقابلے میں انتخابی میدان میں اُتارا تھا۔ کونسل مسلم لیگ کی امیدوار ”مادر ملت“ کو مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اور خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں گرفتار ہُوئے تو انہوں نے بیگم نُصرت بھٹو کو پیپلز پارٹی کی قائم مقام چیئر پرسن نامزد کردیا حالانکہ پارٹی کے مرکزی سینئر وائس چیرمین ”بابائے سوشلزم“ شیخ محمد رشید تھے۔ بیگم نُصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئر پرسن نامزد کر دِیا تھا۔ وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں والدہ صاحبہ کو چیئر پرسن شپ سے برطرف کر کے خود چیئر پرسن بن گئی تھیں۔ محترمہ نے اپنی زندگی میں جناب آصف زرداری کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن جنابِ زرداری نے ان کی مبّینہ وصیت برآمد کر کے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ”بھٹو“ کا خطاب دے کر انہیں چیئرمین بنا دِیا اور خود اُس کے ماتحت شریک چیئرمین بن گئے۔ اب اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت ہیں۔
بھٹو دَور میں خان عبدالولی خان گرفتار ہوئے تو بیگم نسیم ولی خان سیاستدان بن گئیں میاں نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو سیاست میں لائے اور آج کل میاں شہباز کی سرپرستی میں اُن کے بیٹے حمزہ شہباز ”وزیراعلیٰ انڈر ٹریننگ“ ہیں۔ مریم نواز کوبے نظیر بھٹو کا انداز سیاست سکھایا جا رہا ہے۔ وہ مذہبی جماعتیں جِن کے قائدین خواتین کو ووٹ کا حق دینے کو ”خلافِ اسلام“ سمجھتے تھے وہ اپنی با پردہ گھریلو خواتین کو مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں لے آئے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ کیسی تحریک انصاف ہے جس کے چیئرمین اپنی اہلیہ کو سیاست اور پارٹی کے عہدے سے دور رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا عمران خان دور حاضر کے ”رُجعت پسندسیاستدان“ نہیں ہیں؟
"Home Delivery of Democracy!"
بہاولپور میں سولر پارور پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے قوم کو یقین دلایا ہے کہ ”ہم 2018ءتک لوڈشیڈنگ سمیت تمام بنیادی مسائل کا خاتمہ کردیں گے۔ ”جنابِ وزیراعظم نے وضاحت نہیں کی کہ ”بنیادی مسائل کا خاتمہ“ 2018ءمیں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ہوگا یا انتخابات کے بعد؟ اگر پہلے ہوگیا تو مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر اقتدار مِل سکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن بقول جناب اسحاق ڈار غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فیصد لوگوں کا مسئلہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہے وہ تو ہرمہینے مہنگی کی جانے والی بجلی خریدنے کے متحمل ہی نہیں ہوسکتے۔ جب بھی آئی ایم ایف ہماری جمہوری حکومت کو حُکم دیتا ہے کہ....
” نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز“
تو اس حُکم پرفوری عمل ہوتا ہے۔ 8 ہزار یا اس سے کم آمدن/ تنخواہ والے لوگ/ اصل جمہور تو اپنے اوراپنے اہلِ خانہ کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان چاہتے ہیں لیکن جمہوریت، سوشلزم اور اسلام کے نام پر حکومت کرنے والے کسی بھی فوجی/ جمہوری لیڈر نے یہ مطالبہ پورا نہیں کِیا۔ ”شاعرِ سیاست“ نے ہر دَور میں اپنے طبقے کے لوگوں کو مشورہ دیتے ہُوئے کہا کہ....
” میریو سجنو! روٹی، کپڑا ،مکان دی گل نہ کریا کرو!
کر لَو درشن، ظِلّ الٰہی جھروکے وِچّ کھلوتا ہے“
جنابِ وزیراعظم نے فرمایا کہ ” دہشت گردی اور مسلّح جھتّوں کا خاتمہ ہماری پہلی ترجیح ہے۔ کراچی میں بھتّہ خوری کے واقعات ختم ہوگئے ہیں۔ ملکی حالات بہتر ہوئے“ اور پھرکہا کہ ”اب سیاسی حالات بہتر ہونا چاہئیں“۔ یہ کسی اور کو کہا جا رہا ہے یا خود کلامی ہے؟ جنابِ وزیراعظم کا سب سے دلچسپ جُملہ یہ ہے کہ ”مُلکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوریت "Deliver" کر رہی ہے“۔ انگریزی زبان میں "Deliver" کے مختلف معنی ہیں ۔ بعض خواتین Delivery کے لئے ہسپتال جاتی ہیں اور جب کوئی حاکم اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے کا دعویٰ کرے تو یہ لفظ استعمال کرتا ہے۔ کسی علاقے کا پوسٹ مَین یا کسی کمپنی کا ہرکارہ ڈاک یا پارسل اور کمپنی کی مصنوعات کسی خاص شخص تک پہنچائے تو ایسے عمل کو "Home Delivery" کہا جاتا ہے ۔
میاں نواز شریف دوبار پہلے بھی وزیر اعظم رہے ہیں اور جب جب اُن کی حکومت برطرف کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ”بلا جواز میری جمہوری حکومت برطرف کردی گئی“ اپنے دوسرے دَور میں میاں صاحب نے ایٹمی دھماکا کِیا جس سے سند یافتہ اور غیر سند یافتہ ” جمہور‘’‘ بھی بہت خوش ہُوئے تھے گھرگھرجشن منایا گیا تھا۔ یعنی خوشیوں کی "Home Delivery" ہوگئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سولر پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب کے جِس "Speech Writer" نے وزیراعظم کی تقریر لِکھی ہے وہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے اور دوسرے دَور میں اُن کے ساتھ نہیں تھا۔ وگرنہ وہ جنابِ وزیراعظم کی تقریر میں یہ جُملہ نہ جڑ دیتا کہ ”ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوریت "Deliver" کر رہی ہے“۔ علاّمہ اقبال نے پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ”سلطانی جمہور“ کا خواب بھی دیکھا تھا جب کہا....
” سُلطانی¿ جمہور کا آتا ہے زمانہ!
جو نقشِ کُہن تم کو نظر آئے مِٹا دو“
اب کیا کِیا جائے کہ ہر دَور میں ”نقوش ہائے کُہن“ اور بھی گہرے ہو گئے ہیں۔ صورت یہ ہے کہ جن معمر والدین کی بیاہنے کہ قابل بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں اور جن کے تعلیم یافتہ بیٹے بے روزگاری کے باعث نشے کے عادی ہوگئے ہیں ، کیا اُن کے کے لئے جمہوریت کی "Home Delivery" کا بندوبست کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی محلے کی کوئی بے آسرا بُڑھیا اپنے پاس سے گُزرنے والے مسلم لیگ (ن) کے کسی مخلص کارکن کو آواز دے کر کہے ” وے پُترا! تھوڑی جِنّی جمہوریت مَینوں وی دے جا!“ جمہوریت کے ثمرات کا کوٹہ وزیروں، مشیروں اور ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کو حِصّہ بقدرِ حُبثّہ ملے کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ بشرط کہ پولیو کے قطروں کے برابر، عام لوگوں کے لئے بھی "Home Delivery of Democracy " کا بندوبست کر دِیاجائے ۔

ای پیپر دی نیشن