لاہور (خصوصی رپورٹ) پانامہ لیکس کے پس منظر میں کچھ عناصر بغیر تحقیق اور شواہد کے یہ غلط اور بے بنیاد تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے جسٹس فرخ عرفان خان نے بھی آف شور کمپنیاں بطور جج بنائیں اور ان میں غیر قانونی ملک سے باہر پیسہ باہر منتقل کیا۔کیونکہ بطور جج جسٹس فرخ عرفان خان ان سب بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کا جواب خود نہیں دے سکتے، جن کا مقصد ان کی اور جوڈیشری کی ساکھ کو متاثر کرنا ہے، اور نہ ہی کسی نے ان کے خاندان والوں سے وضاحت طلب کی، ان کی خاموشی کو بھی غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ لہذا ہم ان کے فیملی ممبران یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اصل حقائق عوام کے سامنے لیکر آئیں۔ جسٹس فرخ عرفان خان بطور وکیل اپنے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان اور دنیا بھر میں بے پناہ مقبولیت رکھتے تھے اور دنیا کی بہت ساری صفحہ اول کی کمپنیوں کے قانونی مشیر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ بین الاقوامی کمپنیوں کیلئے کام کرتے تھے، انہوں نے بیرون ملک کام کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی پاکستان کی لاء فرم اپنے فیملی ممبر کو ٹرانسفر کر دی اور بیرون ملک کام پر توجہ مرکوز کر لی۔ انہوں نے بیرون ملک قانونی طریقے سے بے پناہ مالی منافع بھی کمایا جس کا ایک بہت بڑا حصہ قانونی بنکنگ ذرائع سے پاکستان منتقل کیا۔ ملک سے باہر رہتے اور کام کرتے ہوئے انہوں نے اپنی قانونی بیرون ملک آمدن کا تھوڑا حصہ پراپرٹی میں انویسٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور 2004/2001 میں اس مخصوص مقصد کیلئے آف شور (Offshore) کمپنیاں قانونی طریقے سے بنائیں جن کا کچھ حصہ بیرون ملک قانونی طور پر کمائی گئی آمدن سے بیرون ملک رہتے ہوئے ادا ہوا جو کہ انکے فروری 2010ء میں جج بننے سے بہت پہلے کی بات ہے۔اس مقصد کیلئے ایک پیسہ بھی پاکستان سے کسی بھی طرح باہر نہیں گیا۔ جب فروری 2010ء میں ان کا نام بطور جج لاہور ہائیکورٹ نامزد ہوا، وہ اس وقت ملک سے باہر تھے۔ وہ فوراً ملک واپس آئے اور بطور جج حلف لینے سے پہلے خود کو تمام اندرون ملک اور بیرون ملک پروفیشنل و کاروباری سرگرمیوں اور فیملی کاروبار وغیرہ سے الگ کرلیا۔تمام پراپرٹیز، ڈائریکٹرشپ، شیئرز وغیرہ اپنی بیٹی اور دیگر فیملی ممبرز کو منتقل کردئیے جس کے بعد ان کا ان سے کوئی تعلق نہ رہا ۔تمام بالا حقائق کاغذات سے ثابت ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ جو لوگ اپنے مذموم عزائم کی وجہ سے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں وہ اس لامحالہ بحث سے گریز فرمائیں گے۔