عدالتی فیصلوں کی تضحیک

انگریز اور ہندو کی چالوں کو مات دے کر جس شان سے قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا مقدمہ جیتا اس نے قائداعظم ایک کامیاب وکیل اور مدبر سیاستدان ہونے کی دنیا پر دھاک بٹھا دی۔ عظیم الشان کامیابیوں اور مقبولیت کی انتہا تک پہنچنے کے باوجود قائداعظم نے کبھی عدالتی فیصلوں کی تضحیک کی اور نہ انہیں بھرے جلسوں میں ٹکے ٹوکری کیا۔
بانی پاکستان کے پیروکار ہونے کے ناطے پاکستان کے ہر وکیل اور سیاست دان کے خمیر میں آئین و قانون کی پاسداری موجود ہونی چاہئے تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے موجودہ وکیلوں اور سیاست دانوں کی بڑی تعداد قانون کی پاسداری اور عدالتی فیصلوں کے احترام سے آزاد و خود مختار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان وجود پذیر ہوا تو وسائل کی قلت کی وجہ سے قائداعظم کی ایک آواز پر کاروباری افراد نے لبیک کہا اور نوزائیدہ مملکت کے لئے وسائل قائداعظم کے قدموں پر نچھاور کر دئیے۔ اسی پر موقوف نہیں قائداعظم کی خواہش کی تعمیل میں دن رات سخت محنت کرکے کاروبار بڑھائے پھیلائے اور اہل وطن کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔
بانی پاکستان کی سیاسی فکر کے وارث سیاست دانوں نے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ کاروباری ماحول سازگار بنانے اور ملک کو دشمن کی بری نظر سے بچانے کے لئے ہم آہنگی پیدا کرنے کی بجائے اقتدار کی بھوک بڑھائی۔ کھینچا تانی میں متعدد بار جمہوریت کو پٹڑی سے اتارا اور آمریت کی گرفت میں پھنسایا۔ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی خواہش نے اہل سیاست کو عوامی ضروریات اور تقاضوں سے دور رکھا۔ زراعت کی ترقی‘ پاکستان کے پانیوں پر دشمن کی جارحیت کو روکنے اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو مکمل کرنے پر بہت کم توجہ دی گئی۔ سستی اور وافر بجلی بنانے کا بڑا منصوبہ کالا باغ ڈیم سیاست دانوں کی اسی قسم کی تغافل شعاریوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
سیاستدان زیادہ تر سیاسی چپقلشوں اور لڑای جھگڑوں میں الجھے رہے اکٹھے صرف اس وقت دکھائی دئیے جب اقتدار کا ہما سر سے اڑتا ہوا محسوس ہوا۔ کاروباری پس منظر اور محنت کے خوگر میاں محمد نواز شریف جب بھی اقتدار میں آئے تعمیر و ترقی کے میگا پراجیکٹس شروع کرائے۔ لاہور سے اسلام آباد موٹروے انہی کی کاوشوں کا شاہکار ہے۔ سازشوں کا شکار ہو کر میاں محمد نواز شریف کو قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن ان کے لئے عوام کی محبت میں کمی نہیں آئی۔ 2013ء کے الیکشن میں بھرپور کامیابی ملی۔ لاہور راولپنڈی اسلام آباد ملتان میں میٹرو بس چلائی۔
جدید ائرپورٹوں کی تشکیل پاکستان کی خوشحالی کا پیغامبر سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کے علاوہ غریب افراد کے لئے صحت کارڈوں کے اجرا جیسے درجنوں منصوبے نہ صرف شروع کرائے بلکہ بیشتر مکمل ہو کر ثمر آور بن چکے ہیں۔ شاندار کاکردگی کو دیکھتے ہوئے سیاست دانوں نے سازشوں کا جال بچھایا تاکہ انکے بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل نہ ہو سکیں۔ الیکشن میں دھاندلی کا بہانہ بنا کر لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی۔ اسلام آباد کے وسط میں کنٹینر دھرنا دیا جہاں ہر شام کنٹینر پر کھڑے ہو کر امپائر کی انگلی اٹھنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ جب کوئی انگلی نہ اٹھی تو اسلام آباد کو یرغمال بنانے کی سازش تیار کی گئی تاکہ پورا نظام جامد کر دیا جائے اور وزیراعظم استعفا پر مجبور ہو جائیں۔ سب ناکامیوں کے بعد پانامہ کیس پکڑا اور عدالت پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ سے وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی استدعا کی۔ سوا سال تک عدالت میڈیا اور سڑکوں پر کیس کی شنوائی اور بدزبانی کی سیاست ہوتی رہی۔
مقصد یہ تھا کہ حکومت کے شروع کردہ بڑے ترقیاتی منصوبے پراگریس نہ کر سکیں۔ دوست ملک چین کے اشتراک و تعاون سے سی پیک پر کام شروع ہوا تو انہی سیاست دانوں نے اسے متنازعہ بنانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن چینی قیادت اور پاکستان کے قائدین کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہ کر سکے۔ مسلمان ملکوں کی مشترکہ فوج کی کمانڈ کا اعزاز پاکستان کے حصے میں آیا تو جناب راحیل شریف کے انتخاب پر اعتراضات کئے گئے۔
وزیراعظم پاکستان اور ان کی حکومت بے تکے اعتراضات کا خار دار جنگل عبور کرتے چلے آرہے ہیں۔ پانامہ کیس کی سماعت ختم اور فیصلہ محفوظ ہوا تو تمام فریق بار بار اعلان کرتے رہے کہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آئے گا اسے من و عن تسلیم کیا جائے گا۔ اپنی گفتگو میں سیاست دان یہ بھی کہتے رہے کہ قانون اور نون کا مقابلہ ہے۔ سپریم کورٹ سے نون کا تابوت نکلے گا۔ یا قانون کا تابوت نکلے گا۔ قابل احترام جج صاحبان کی اکثریت نے وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی استدعا مسترد کر دی البتہ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم صادر کر دیا ہے۔
فیصلہ آنے کے ایک دن تک سیاست دان مخمصے کا شکا رہے۔ حکومتی پارٹی کے ورکرز کو دیکھ کر انہوں نے بادل نخواستہ مٹھائی منہ میں ڈالتے ہوئے فوٹو بنوا کر اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو جاری کر دی تاہم دوسرے دن موقف بدل لیا اور سپریم کورٹ کا آرڈر تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ جگہ جگہ عدلیہ کے فیصلے کا منہ چڑایا جا رہا ہے۔ عدالتوں کے فیصلے معاشرے کے لئے قابل عزت و احترام ہوتے ہیں اور انہیں تسلیم نہ کرنا توہین عدالت قرار دیا جاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سیاست دان اپنے کہے ہوئے الفاظ کا پاس و لحاظ کریں۔ اپنے جلسوں میں فیصلوں کو ٹکے ٹوکری نہ کریں عدلیہ بھی قانون سے روگردانی کرنے والے سیاست دانوں کو راہ راست پر لا سکتی ہے۔
جو کچھ اس وقت کہا جا رہا ہے اس کا نوٹس اگر عدالت نے نہ لیا تو ملک میں قانون کی حکمرانی کی بجائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلے گا۔ دراصل سیاست دان جو خود بھی خیبر پختون خواہ‘ سندھ‘ بلوچستان اور مرکز میں حکومت کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر گلگت بلتستان بلدیاتی اداروں اور جس قدر ضمنی الیکشن ہوئے ان سب میں میاں محمد نواز شریف کے امیدواروں سے شکست کھا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی فلاح و بہبود کے متعدد منصوبے میاں صاحب کے کریڈٹ پر ہیں اس لئے شور برپا کرنے والے سیاستدانوں کو 2018ء کے الیکشن میں ناکامی نظر آرہی ہے۔ چاہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف پر کسی طرح نااہلی کا داغ لگ جائے جس کا دور دور تک امکان نہیں۔ اس لئے حسب معمول تمام سیاست دانوں سے ہماری درخواست ہے کہ عدالت کا فیصلہ آگیا ہے۔ اپنے وعدوں کے مطابق اسے تسلیم کریں۔ انتشار پیدا کرکے کاروباری ماحول خراب نہ کریں۔ حب الوطنی کا ثبوت دیں اور 2018ء کے الیکشن کا انتظار کریں۔

ای پیپر دی نیشن