اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اسلام آباد میں فاٹا اصلاحات پر آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ سول۔ ملٹری بیوروکریسی کے درمیان ہمیشہ کی نفرت ہے جو قبائلی علاقوں پر اپنی گرفت کو ڈھیلا نہیں پڑنے دیتی۔ جب ایک دفعہ یہ گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی تو اصلاحات کے پیکج چاہے وہ خیبر پی کے میں ضم ہونا، مقامی حکومتوں کا قیام یا اعلیٰ عدالتوں کا اختیار قبائلی علاقوں تک وسیع ہونا سب اپنی جگہ آجائیں گے۔ یہ کثرالجماعتی کانفرنس فاٹا کے پارلیمنٹیرینز نے منعقد کرائی اور اس کانفرنس میں سیکولر، مذہبی اور قومیت پرست پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے جس میں شاہ جی گل آفریدی، بیرسٹر ظفراللہ، اسد قیصر، غلام احمد بلور، طارق اللہ، اجمل، میاں افتخار حسین، زاہد خان، ہاشم بابر، جاوید آفریدی، سینیٹر سجاد طوری، میر کبیر شاہی اور لطیف آفریدی کے ساتھ دیگر لوگوں نے شرکت کی۔ انہوں نے سول ملٹری بیوروکریسی کی گرفت کمزور کرنے کے لئے چھ پوائنٹ فارمولہ دیا جس کا پہلا نکتہ یہ ہے فوری طور پر آڈیٹر جنرل کو یہ اختیار دیا جائے وہ فاٹا کو ملنے والی بیرونی امداد کا آڈٹ کریں اور گزشہ دس برسوں کے دوران سول-ملٹری بیوروکریسی نے جتنی رقم قبائلی علاقوں کے لئے خرچ کی اس کا آڈٹ بھی کیا جائے۔ سول- ملٹری بیوروکریسی کو 80ارب روپے ترقیاتی مد میں بغیر کسی آڈٹ اور نگرانی کے خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ فی الوقت پارلیمنٹ کی کمیٹیوں، میڈیا اور این جی اوز کو سکیورٹی کے نام پر قبائلی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے احتساب شفافیت اور نگرانی کو یقینی بنانے کے لئے منتخب نمائندوں کو شامل کیا جائے اور اربوں روپے کی خطیر رقم کو بغیر آڈٹ اور نگرانی کے استعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے پالیسی کمیٹی اور عملدرآمد کی کمیٹی میں منتخب نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے قبائلی علاقوں میں لیویز فورس کو پولیس کے برابر لایا جائے۔ اصلاحات کے مطابق لیویز کی تعداد 12ہزار سے بڑھا کر 35ہزار کر دی جائے جو کہ کے پی کے کی پوری پولیس فورس کی نصف تعداد ہے۔ آئندہ پانچ برسوں میں فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جاتا ہے تو پھر لیویز کو بھی پولیس میں ضم کیا جانا ضروری ہے۔ پانچواں نکتہ یہ ہے سول- ملٹری بیوروکریسی ریگولیشن کو نافذ کرنے کے لئے اپنے مفاد میں صدر کا آفس استعمال کرتی ہیں اور عوام کا مفاد انہیں عزیز نہیں۔ اس کا حل یہ ہے مقامی حکومت اور رواج جو ایف سی آر کامتبادل ہے انہیں پارلیمنٹ میں لایا جائے بجائے اس کے کہ صرف صدر کے حکم کے ذریعے بغیر کسی بحث و مباحثے کے اسے نافذ کر دیا جائے۔ چھٹا اور آخری نکتہ یہ ہے قبائلی علاقوں میں اصلاحات کرنے کے لئے پاکستان کو اپنی افغان پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی کیونکہ ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی افغان پالیسی کے متعلق بہت سارے سوالات جواب طلب ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق شاہ جی گل آفریدی کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے بجٹ اجلاس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے۔ فاٹا میں 2018ء انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔