بائیکاٹ مری مافیا؟

 ابھی چند ماہ پہلے ہی لیپاری ہوٹل میں خواجہ شجاع اللہ صدر دی پاکستان ٹورازم بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ پاکستان میں اس وقت سیاحت میں بہتری کا سفر جاری ہے۔ دنیا بھر سے سیاح پاکستان کے شمالی علاقہ اور قدیمی شہروں کی سیاحت کے لیے آرہے ہیں ۔مگر اس وقت بھی ہم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا ۔کہ جب تک ہماری حکومتیں سیاحت کی طرف بھر پور توجہ نہیں دیں گی ۔سیاحوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی ۔دنیا آج جدت کی طرف گامزن ہے تو آج کا انسان ذہنی تھکاوٹ اتارنے کے لیے اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کے کچھ پل آرام کے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ دنیا میں آباد خوبصورت جزیروں، پہاڑوں، ریگستانوں، جھیلوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ تو بہت سے گئے وقت کو سمجھنے کے لیے قدیم شہروں، قدیم بستیوں اور قدیم عمارتوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اللہ پاک نے اس ملک کو پہاڑوں، ریگستانوں، چشموں، بیابانوں، جھیلوںسے آباد کیا ہوا ہے۔ لیکن حکومت ابھی تک سیاحت کو وہ مقام نہ دے سکی جو دینا چاہیے تھا۔
دنیا آج اپنے ملکوں میں سیاحوں کے لیے پرکشش پیکجز متعارف کروا رہی ہے۔ سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے نیٹ پر اور دوسرے زرائع ابلاغ پر اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔ سیاحوں کو اپنا مہمان سمجھا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں حکومت نے سیاحت کی طرف کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں ہمارے شمالی علاقہ جات بے پناہ خوبصورتی کے حامل ہونے کی باوجود بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان علاقوں میں سڑکوں کی حالت خراب سے خراب تر دیکھی جاتی ہے۔ سیاحوں کے لیے کہیں بھی حکومت یا کسی نجی انتظامیہ نے گائیڈ کی سہولت مہیا نہیں کی ہے۔ ابھی پچھلے ماہ ہم کچھ دوستوں کے ہمراہ لاہور جہانگیر کے مقبرے کی سیر کرنے گئے۔ تو یہ جان کے حیرانگی ہوئی کہ کوئی ایک بندہ بھی وہاں ایسا نہیں ہے۔ جو وہاں آنے والوں کو مقبرہ اور صاحبِ مقبرہ کے بارے میں کچھ تفصیلات بتا سکے۔
مری میں سیاحوں کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کوئی ایک دن کی کہانی نہیں ہیں۔ یہ وہ آگ تھی جو کئی سالوں سے بھڑک رہی تھی۔ قدرتی بات ہے جس علاقے میں بھی باہر سے لوگ آئیں وہاں ایک طرف مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں تو ساتھ ہی ان کے لیے کچھ مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ مری میں بھی رونما ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں جب کسی نے سیاحت کے لیے نکلنا ہو تو اس کے منہ پہ سب سے پہلا نام مری کا ہی آتا ہے۔ ہر سال عید کے مواقع پہ اور گرمیوں میں مری میں لوگوں کی اکثریت پہنچ جاتی ہے۔ سڑکوں پہ گاڑیوں کی لمبی لائین لگی دیکھی جاتی ہیں۔ ہوٹلوں میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ مری کی طرف لوگوں کی اکثریت کا جانا اس لیے بھی ہوتا ہے۔ کہ مری پہنچنا ملک کے باقی شمالی علاقہ جات کی نسبت زیادہ آسان رہتا ہے۔ مری تک سڑک کی حالت بھی اچھی ہے۔ اور مری میں ہوٹل بھی اچھے معیار کے ہیں۔ لیکن جب کسی بھی جگہ گنجائش سے زیادہ لوگ پہنچ جائیں تو مشکلات کا پیدا ہو جانا عام بات ہے۔ ایسا ہی کچھ مری میں بھی ہونے لگا تھا۔ اگر وقت پر حکومتی لوگ اس مسئلے کو دیکھتے، سمجھتے تو شائد آج خواجہ شجاع اللہ جیسے مہذب بندے کو بائیکاٹ مری مافیا مہم نہ چلانا پڑتی۔ اس جمعے کو ملک کے طول و عرض سے بہت سے سیاحت کے شوقین ایک بار پھر لیپاری ہوٹل کے ہال میں جمع تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے پاکستان کے علاوہ دنیا کے بہت سے ملکوں کو دیکھ رکھا تھا۔ بہت سے لوگ یہ بھی بتا رہے تھے۔ کہ مقامی لوگوں کے سخت، کرخت روئیے اور انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے انہوں نے کئی سالوں سے مری کا رخ ہی نہیں کیا ہے۔ خواجہ شجاع اللہ جنہیں مری سے کچھ زیادہ ہی محبت ہے۔ وہ اس نقطے کو واضح کیے جا رہے تھے۔ کہ مری اور مضافات میں بسے لوگ بہت پڑھے لکھے، مہذب اور خاندانی لوگ ہیں۔ مہمان نوازی ان کے خون میں شامل ہے۔ ہم مری کے لوگوں کے خلاف نہیں ہیں۔ بلکہ ہم ان چند لوگوں کے خلاف ہیں جو انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے رویے ہی ہماری پہچان بن جاتے ہیں۔ لہذا جو شناخت ہماری بحیثیت قوم بن چکی ہے اس سے چھٹکارہ آسان نہیں۔ ہم جس اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ اسے ختم کرنے کے لیے کوئی بھی قابل عمل اور موثر حکمت عملی نہیں اپنائی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم ہو یا صحت، میڈیکل کا شعبہ ہو یا صحافت کا مقدس پیشہ، کھیل کا میدان ہو یا عدالتی نظام ہر کہیں کرپشن اور لاپر وائیوں کی ان گنت کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہمارے مزاج میں شدت پسندی کا عنصر غالب آتا جارہا ہے۔ لوگ بہت جلد غصے میں آجاتے ہیں۔ معمولی باتوں پر قتل جیسے واقعات رونما ہونا عام سی بات بن چکا ہے۔ اعتدال کی فضا ہمارے مزاجوں کو راس ہی نہیں آتی ہے۔ مری کے ان واقعات سے سبق سیکھ کے ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کا م کیا جاسکتا ہے۔ آسان حل تو یہ بھی ہے کہ ملک کے باقی علاقوں میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے کام کیا جائے۔ سفری، رہائشی سہولتیں بہتر کی جائیں۔
ملک کے ہر شہر ہر قصبے اورتاریخی عمارت میں سیاحوں کی سہولت کے لیے گائیڈز بھرتی کیے جائیں۔ سیاحوں کے لیے الگ سے پولیس فورس بنائی جائے۔ جو جدید سہولتوں سے لیس اور تربیت یافتہ بھی۔ سیاحوں کے لیے کچھ قوانین بنائے جائیں۔ انہیں بتایا جائے کہ یہاں کے مقامی لوگ مہمانوں کے لیے جان قربان کر دیتے ہیں تو اپنی عزت پر حرف آنے لگے تو کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے پمفلٹ تیار کیے جائیں۔ ہر شہر میں سیاحتی مراکز قائم کیے جائیں۔ جو نہ صرف اپنے شہر آنے والوں کی راہنمائی کریں۔ بلکہ سیاحوں کو باقی ملک میں موجود پر کشش جگہوں کے بارے گائیڈ کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...