سیاسی قیادتیں ۔۔۔اگادوڑ پچھا چوڑ

پیر سید صبغت اللہ راشدی اپنے والد کی رحلت کے بعد جب مسند پگارو پر برجمان ہوئے اور مسلم لیگ فنگشنل کی صدارت سنبھالی تو لاہور میں محمد علی درانی نے سیاسی کارکنوں کو فنگشنل لیگ میں شمولیت کے لئے قائل کیا۔ لبرٹی مارکیٹ کے قریب ایک رہائش گاہ پر ظہرانے کا اہتمام تھا۔ پریس سے گفتگو کے دوران سینئر صحافی معروف تجزیہ نگار خواجہ فرخ سعید نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیر صاحب پنجابی کا ایک محاورہ ہے "اگا دوڑ پچھا چوڑ" یعنی سابقہ کو فراموش کرکے آگے بھاگنا۔ پیر صاحب نے کہا کہ میں اب بھی نہیں سمجھا ۔ خواجہ فرخ سعید نے وضاحت کچھ یوں کی کہ ہم نے کئی عشروں سے آپ کے والد مرحوم کے ساتھیوں عزیز ظفر آزاد ، شیخ انور سعید اور دیگر کو لاہور میں فنگشنل لیگ کے حوالے سے سرگرم دیکھا ہے جو آج آپ کے ہمراہ دکھائی نہیں دے رہے ۔ اس کے بعد کی گفتگو کے لئے علیحدہ کالم درکار ہے۔ راقم الحروف کو یہ واقعہ 29اپریل پی ٹی آئی جلسے کے دوران یاد آیا کیونکہ لاہور میں پی ٹی آئی کی شیرازہ بندی اور تنظیم کاری میں میاں محمود الرشید اور اعجاز چودھری کو شہر کی گلیوں محلوں میں انتھک دیوانہ وار پھرتے ہی نہیں دیکھا بلکہ پانچ سال ان کوپنجاب اسمبلی میں گرجتے برستے بھی پایا ۔ دونوں حضرات اسلامی جمیعت طلبہ کے تربیت یافتہ اور پختہ کار سیاسی کارکن ہیں۔ جن کی صلاحیتوں اور کوششوں کے باعث پی ٹی آئی لاہو رمیں اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ستم بالائے ستم اس جلسہ میں سٹیج کے قریب ان دونوں میں سے کوئی دکھائی نہیں دیا ۔برادر بزرگ خواجہ فرخ سعید کا محاورہ آگے دوڑ پچھلا چوڑ ان کی طویل صحافتی زندگی کا نچوڑ ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ستر سالہ سیاست کا عکاس بھی ہے جس کی ترجمانی کرتے ہوئے عظیم مسلم لیگی رہنما اور قائداعظم کے دست راست سردار عبدالرب نشتر نے کیا خوب کہا:
نیرنگیِ سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
قائداعظم کی رحلت ، قائد ملت کی شہادت کے بعد انگریز کی تربیت یافتہ سول ملٹری بیوروکریسی نے اس کھیل کاآغاز کیا ۔ غلام محمد ، سکندر مرزا اور ایوب خان کی شیطانی سوچوں نے تحریک پاکستان کے حقیقی کارکنوں کو منزل کی جانب جانے سے روک دیا ۔ ایوب خان کا بدنام زمانہ قانون ایبڈو اس کی بدترین مثال ہے ۔ ملک بائیس خاندانوں کی جاگیر بنا پھر کرپشن کے ذریعے بائیس خاندان بائیس سو بن گئے۔ غیر سیاسی طالع آزماﺅں کے تسلط میں آنے کے بعد ریاست بداعتمادی اور نفاق کاشکار ہوتی چلی گئی ۔ اپنا وجود قائم نہ رکھ سکی دو لخت ہوگئی ۔ذوالفقارعلی بھٹونے غریبوں کا نام لیکر سیاست کا آغاز کرتے ہوئے جن لوگوں کا انتخاب کیا ان کی جدوجہد نے بھٹوکو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا ۔ مگر بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی جے اے رحیم ، معراج محمد خان، مختاررانا جیسے بیشمار ساتھیوں کو پس دیوار زنداں ڈالتے ہوئے سیاست کے قبرستان سے دولتانوں ، ٹوانوں ، نون ، لغاری جیسے جاگیر داروں کو اقتدار میں شامل کر لیا جس کے بعد ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے پروگراموں اور منصوبوں کی جگہ محلاتی سازشوں نے لے لی ۔بھٹو اس طبقے کے نرغے میں آتے چلے گئے اور عوام سے براہ راست رابطہ کٹتا چلا گیا ۔ جس کے نتیجے میں بھٹو کو اقتدار سے ہی نہیں بلکہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا مگر بعد کے سیاسی رہنماﺅں نے بھی اس سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا ۔آج بھی سیاسی جماعتوں کے نظریاتی او رباصلاحیت ایسے افراد جن کی موجودگی سیاسی جماعتوں کے وقار اور عزت کا باعث بنتی ہے ، جن کا ماضی بے داغ اور حال پرکشش ہوتا ہے جن کے کردار سے ایوان محترم و مکرم دکھائی دیتے ہیںا ور حکومتیں راہ راست پر چلنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ پارٹی لیڈر ان شخصیات کو نظر انداز کرکے الیکٹ ایبل کے نام پر خوش آمدیوں ، زرپرستوں اوربدعنوانوں کو پارٹی ٹکٹ دیکر ایوانوں تک پہنچاتے ہیں جس کا منطقی انجام آج کے ایوان میں لگی منڈی کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران ایک معروف صحافی اور اینکر پرسن فرما رہے تھے کہ حضرت قائداعظم کے ایک عظیم ساتھی محمد حسین چٹھہ کے پوتے عابد چٹھہ جن کی لیاقت و قابلیت کی سطح کا کوئی شخص پی ٹی آئی میں ہے نہ ن لیگ میں انتخابات میں قومی سوچ رکھنے والے ایسے نظریاتی نوجوان کو ٹکٹ نہ ملنا کسی المیے سے کم نہیں ۔ یاد رہے بزرگ مکرم محمد حسین چٹھہ نے ضیاءالحق کا گورنر بننا جمہوریت کی توہین قرار دیا تھا ۔ ان کے صاحبزادے حاجی نعیم حسین چٹھہ پچھلے چار پانچ عشروں سے اپنے علاقے کی نمائندگی چیئر مین ڈسٹرکٹ کونسل رکن صوبائی و قومی اسمبلی اور سینٹ کرتے آرہے ہیں۔ ان کی ذات پر کسی قسم کا کوئی الزام یا اعتراض سننے یا دیکھنے میں نہیں آیا ۔ شرافت و دیانت کے پیکر بتائے جاتے ہیں ۔ اس پس منظر کی موجودگی میں عابد چٹھہ کی جگہ عمران خان کا اس نشست سے خود الیکشن لڑنا بھی تحریک انصاف کے دستور و منشور سے تضاد ہوگا۔ اگر کرپشن کے خلاف یہ حقیقی جنگ ہے تو ہر حلقے میں عابد چٹھہ ڈھونڈھنا ہوگایعنی دیانت دار اور نظریاتی لوگوں کی تلاش کے بغیر مثبت نتائج ممکن نہیں۔ 1951ءکے عام انتخابات میں شہید ملت لیاقت علی خان نے سرگودھا کے نون خاندان کے قومی اسمبلی کے امیدوار کے ساتھ ایک نظریاتی کارکن قاضی مرید حسین کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور عبداللہ روکڑی کے ساتھ مولانا عبدالستار نیازی کو صوبائی ٹکٹ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ دونوںایم این اے حضرات اپنا الیکشن تو لڑہی رہے ہیں مگر قاضی مرید حسین اور عبدالستار نیازی کی جیت مسلم لیگ کی جیت ہے اور وقار کا سوال ہے کیونکہ یہ نظریاتی کارکن ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی لیاقت علی خان نے خودخوشاب آکر جلسے میں شرکت کرکے قاضی مرید حسین کی جیت کو ممکن بنایا۔
قارئین کرام ۔ اب وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں عام انتخابات سے قبل اپنے اندر تطہیر کا عمل جاری کریں ۔ کرپٹ جمہور گریز اور خوشامدی طبقے سے نجات حاصل کرکے قومی فکر سے آراستہ اور وطن دوست باکردار افراد کو تلاش کرکے ایوانوں تک پہنچایا جائے ۔ لیاقت علی خان ،سردار عبدالرب نشتر، خان عبدالقیوم خان ،،مولانا ظفر علی،افتخار ممدوٹ ، حمید نظامی ، محمد حسین چٹھہ ، عبداللہ ہارون ، شیخ عبدلمجید سندھی ، قاضی عیسیٰ اور میر جعفر خان جمالی جیسے گھرانوں اور نسلوں کے چراغوں کو ایک بار پھر روشن کرکے مملکت خداداد کو اس کی منزل جدید فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کی جانب گامزن کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...