پاکستان کی اکہتر سالہ تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت اپنی آئینی ٹرم مکمل کر رہی ہے اور اگلی حکومت کے فیصلے کے لئے نئے الیکشن کی آمد آمد ہے، حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے اور انہی کے ہاتھ میں رہنا چاہئے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں۔ حکومتوں کے بنائو بگاڑ میں عوام کو لا تعلق کر دیا گیا، کبھی اندرونی انتشارا ور باہمی محاذ آرائی کی وجہ سے کوئی حکومت چلتی بنی، کسی حکومت کو بیرونی اشاروں اور دبائو پر چلتا کر دیا گیا اور کئی حکومتوں کو فوجی جرنیل کھا گئے۔ مگر اب اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ زرداری حکومت اور ممنون حکومت نے اپنی ٹرم پوری کی، اگرچہ ان دونوں حکومتوں کے دوران وزرائے اعظم بھو نچالوں کی نذر ہوئے مگر ان کی پارٹیوں کا اقتدر البتہ قائم ودائم رہا اور الیکشن کے نتیجے میں ہی نئی حکومت تشکیل پائی۔ اب کے بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے اور یہ قومی خوش قسمتی کی دلیل ہے، یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہمارے اداروں نے جمہوری عمل کا احترام کرنا سیکھ لیا ہے خواہ کسی مجبوری کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو، معاملہ چھیڑ چھاڑ تک ہی محدود رہا، حکومت کے خاتمے کی نوبت نہیں آئی۔ توقع رکھنی چاہئے کہ جیسے جیسے ہم میچیور ہوتے چلے جائیں گے تو ہمارے ہاں بھی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے بننے والی حکومت اپنی ٹرم مکمل کر لیا کرے گی، امریکہ، برطانہ، فرانس اور ہمارے پڑوس بھارت میں بھی حکومتی استحکام نظر آتا ہے، ان ملکوں میں جمہوری عمل کی جڑیں گہری ہیں اورعوام کا شعو پوری طرح بیدار ہے اور محلاتی سازشوں نے رواج نہیں پکڑا۔ امریکہ اور یورپ نے جمہوریت کا پھل کھایا۔ بھارت نے جمہوری استحکام سے قوموں کی برادری میں عزت کا مقام حاصل کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سوا ارب کی آبادی کو بھارتی جمہوریت ابھی تک خوشحال نہیں کر سکی۔ اور اقلیتوں کے جمہوری حقوق کی پامالی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پاکستان میں ایک نیک عمل کاآغاز ہوا ہے، یہ بسم اللہ ہے اور اسے نیک شگون ہی قرار دیا جانا چاہئے۔ الیکشن بار بار ہوتے رہے اور اپنے وقت پر ہوتے رہے تو یہاں بھی سیاسی اور جمہوری روایات جڑ پکڑ جائیں گی اور پھر محلاتی سازشیں اور فوجی طالع آزما یا بیرونی طاقتیں ہماری قسمت کے فیصلوں کو نہیں بدل سکیں گی۔
پاکستان میں جمہوریت کے نئے دور کو میثاق لندن نے بھی تقویت بخشی۔ اسے میثا ق جمہوریت بھی کہا جاتا ہے، اس پر نواز شریف اور شہید محترمہ بے نظیر کے دستخط ہیں اور اس میں عہد کیا گیا کہ دونوں پارٹیاں ماضی کی طرح انٹیلی جنس کے اشاروں پر باہمی محاذ آرائی کا شکار نہیں ہوں گی، بلیم گیم میں نہیں پڑیں گی اور ایک دوسرے کی حکومت کو مستحکم کرنے میں مکمل تعاون کریں گی۔ نواز شریف نے اس معاہدے کو نبھایا اور اسی وجہ سے دگر گوں حالات اور سنگین چیلنجز کے باوجود زرداری حکومت نے اپنی ٹرم مکمل کی مگر مصیبت یہ ہے کہ اب نواز شریف کی حکومت آئی تو میثاق جمہوریت کو پس پشت دھکیل دیا گیا، زرداری نے وہ تعاون نہیں کیا جس کے وہ مکلف تھے۔ اس بنا پر نواز شریف کو گھر جانا پڑا، بلوچستان میں ان کی حکومت ٹوٹ گئی اور سینیٹ کے الیکشن کو سبو تاژ کر دیا گیا۔ اب زرداری کے عزائم یہ ہیں کہ وہ پنجاب میں بھی اپنی حکومت قائم کریں گے، دوسری طرف عمران خان کے ارادے ہیں کہ پورے ملک پر مسلط ہو جائے، اگر تو یہ فیصلے عوام نے کئے تو انہں ہر کوئی قبول کرے گا اور خوش آئند قرار دے گا ورنہ خدشہ یہ کہ اکہتر برس بعد خدا نخواستہ ہم کسی دوسرے اکہتر کے المیئے سے دوچار نہ ہو جائیں۔
ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر طرح طرح کے تجربے ہوئے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ فو جی آمروں نے بھی جمہوریت پسند بننے کا شوق پورا کیا۔ ایوب خان نے قائد اعظم کی مسلم لیگ پہ لات ماری اور اپنی کنونشن لیگ بنا لی۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ا س دور میں بھی قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے اور جمہوریت کو نچلی سطح تک پہنچانے کے لئے بی ڈی سسٹم رائج ہوا جسے صدارتی الیکشن کے لئے الیکٹورل کالج بنا لیا گیا۔ بی ڈی ممبروں کو الیکشن سے قبل اغوا کر لیا گیا اور جب ان سے ایوب خان کے حق میں ووٹ ڈلو الئے گئے تو تب ہفتوں بعد انہیں رہائی نصیب ہوئی۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان کا مارشل لا آیا تو ان پر آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کروانے کا جنون طاری ہوا۔ مگر الیکشن ہو جانے کے بعد حضرت صاحب نے عوامی مینڈیٹ کے مطابق انتقال اقتدار نہ کیا بلکہ سب سے بڑی اور اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت نے اس خانہ
جنگی کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے پاکستان کو دو ٹکڑے کروا دیا۔ باقی ماندہ پاکستان میں فوج نے بھٹو کو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر حکومت سونپ دی، یہ انسانی تاریخ کی ایک نادر مثال تھی۔ بھٹو نے جلد ہی مارشل لا کی چھتری سے چھٹکارہ حاصل کیا مگر وہ جمہوری اصولوں کے مطابق حکومت نہ چلا پایا، پہلے تو مخالفین کا نمدا کسا اور پھر اپنے ہی ساتھیوں کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، اس طرز حکمرانی کے خلاف پی این اے کاا تحاد بنا جسے فوجی اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی کیونکہ جلد ہی فوج نے سیاست دانوں کو پیچھے دھکیلا اور خود اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ یہ ضیا لحق کا مارشل لا تھا، اسے بھی سیاست دانوں کے ایک ٹولے کی حمایت حاصل ہو گئی۔ ضیا الحق نے جمہوریت کو غیر سیاسی بنانے کے لئے غیر جماعتی انتخابات کروائے۔ مگر اس کی اپنی بنائی ہوئی اسمبلی اس کے ساتھ چلنے کو تیار نہ ہوئی، یہ جاوید ہاشمی ہی تھا جس نے پہلی بغاوت کی اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں جذباتی لہجے میں کہا کہ مسٹر مارشل لا! ابائوٹ ٹرن اینڈ کوئیک مارچ۔ جنرل ضیا طیارے کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے، ان کے بعد کسی فوجی سربراہ کو حکومت پر قابض ہونے کا حوصلہ تو نہ ہوا مگر ہر ایک نے حکومت پر اپنا دبائو برقرا رکھا۔ بے نظیر اور نواز کی حکومتیں بننے دی جاتیں اور پھر گھٹیا الزامات کے تحت انہیں برطرف کر دیا جاتا۔ یہ طوائف الملوکی کا دور تھا۔ جس پر نہ سیاست دان فخر کر سکتے ہیں اور نہ فوجی جرنیل۔ اس دور کو بھی زیادہ دیر برداشت نہ کیا گیا اور ایک بار پھر جنرل مشرف کی شکل میں فوجی آمر آ گیا، اس نے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے سیاست دانوں کی ایک ٹیم اپنے ساتھ ملائی۔ جسے ق لیگ کے نام سے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، مشرف کے ساتھ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، امید تو یہ تھی کہ چار مارشل لا حکومتوں کے بعد پاکستان میں جمہوریت آئے گی تو بلا روک ٹوک چلے گی مگر اب بھی سیاستدان امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور کھلم کھلا ایک دوسرے پر فوج کی سر پرستی کے الزامات عائد کرتے ہیں، یہ سب کچھ اس امر کی نشانی ہے کہ پاکستانی سیاست دانوںمیں ابھی میچیوریٹی نہیں آئی اور وہ مفادات کے اسیر ہیں، یہ رویہ جمہوریت کے لئے سخت خطرہ ہے مگر اطمینان کی بات ہے کہ ابھی پارلیمنٹ کام کر رہی ہے سینیٹ کے الیکشن ہو گئے ہیں اور عام انتخابات کا بگل بجنے والا ہے۔ ایسا ہو گیا تو دنیا پاکستانی سیاست دانوںکو شاباش دے گی کہ وہ اپنے فیصلے ووٹ کی طاقت سے کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔