دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو، عزت مفت میں نہیں ملتی اور نہ ہی کسی کو طشتری میں رکھ کر پیش کی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو اس قابل بنانا پڑتا ہے، کہ لوگ عزت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ جس طرح کوئی اپنا کمایا ہوا مال و متاع کسی سے ایسے ہی شئیر نہیں کرلیتا، ایسے ہی کوئی عزت بھی شئیر نہیں کرتا، اگرکرتا ہے تو کسی باہمی اشتراک کے سبب ، کسی بارٹر سسٹم کی وجہ سے ، یا کہیں سلسلہ مشترکہ مفادات اور ہم زیستی (Mutualism) ہو ، کبھی انگل شناسی (پیراسائیٹ ازم) نہیں چلتا !
میاں نوازشریف کا سیاسی فلسفہ "ووٹ کو عزت دو" کے گرد گھوم رہا ہے۔ زمانہ دعاگو ہے کہ اللہ کرے میاں صاحب اپنے مشن میں کامیاب ہوں اور ووٹ کو عزت دلانے میں کامیاب ہو جائیں۔ وزیراعظم عباسی نے ’’سیاست دان کو جج اور جرنیل کے برابر عزت دو!‘‘ کہ خواہش کااظہار کیا ہے۔ اب کہا کسے ہے؟ مجھے نہیں معلوم۔ اگر تو ہم عوام سے کہا ہے تو پھر واضح رہے کہ ہم نے جنرل یحییٰ اور جنرل مشرف سے کئی سو گنا ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو عزت دی ہے۔ رہی بات جنرل ایوب کی تو چند مسلم لیگیوں کو چھوڑ کر باقی مسلم لیگی سیاستدانوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو فراموش کرکے ایوب خان کو صدارتی الیکشن جتوایا۔ اس میں خاصی تعداد میںپردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ، بعد ازاںایوب خان نے معاشی و اقتصادی اصلاحات سے عزت کمائی لیکن جب ان کا سامنا مکافات عمل سے ہوا تو انہوں نے اقتدار کو فوری خیرباد کہہ کر عزت بچائی۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ سیاستدان بیدار ہوگئے ہیں۔ صداقت عامہ ہے کہ عزت کمانے اور اقتدار تھامنے تھمانے میں سیاستدانوں کا غفلت کی نیند سے جاگنا ضروری ہے۔ قبلہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو یقینا یاد ہوگا، وجہ کچھ بھی ہو یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کو طشتری میں رکھ کر عزت پیش کی ۔ لیکن صدقے جائیں اس ووٹر کے جو سدا سے عزت کا متلاشی ہے۔ اس نے جرنیلوں کی نسبت سیاستدانوں کو فوقیت دی۔ جونہی جنرل ضیا قبر میں اترے تو قبر غیر سیاسی ہوگئی اور وہ توقیر بھی نہ رہی مگر بھٹو کی قبر کا سیاسی جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پھر صدقے جاؤں ووٹر کے جس نے جنرل پرویز مشرف کو سیاست اور انتخابات سے ایسا نکالا جیسے مکھن سے بال نکالتے ہیں اور ووٹر نے مشرف کے مقابلہ میں زرداری صاحب اور پھر میاں نواز شریف کو عزت دی۔ مشرف کو چاہنے والے رانجھا راضی کرلیں اور دیار غیر سے بلا کر بھی دیکھ لیں عوام انہیں کتنی عزت دیتے ہیں۔ اے پیارے لیڈران! آپ نے تو عوام کو چاہا ہی نہیں، چاہنے والوں کی طرح! عوام نے تو آپ سیاستدانوں کو ہمیشہ سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر بنایا، آپ اٹھتے اور یہ تخت و تاج جرنیلوں کے قدموں میں خود ڈالتے رہے۔ شکر ہے اب اپنے کئے پر معافیاں مانگ رہے ہیں اور پچھتا رہے ہیں، اور نہیں معلوم یہ پچھتاوا بھی عارضی ہے یا مستقل؟۔۔۔۔عزت مآب عباسی صاحب! آپ بے شک زبانی کلامی بھی عزت دیں یا نہ ،مگر ووٹر آپ ہی کو عزت دے گا، ووٹر کی طرف سے بے فکر رہیے سیاستدانوں کو جمہور عزت دیتے ہیں، جبکہ جج کو انصاف اور جرنیل کو ملک و قوم کے رکھوالے کی حیثیت سے عزت ملتی ہے۔ رونا یہ ہے کہ اقتداری حسن ہاتھ لگتے ہی سیاستدانوں کی نزاکتیں لوٹ آتی ہیں، کہیں پاناما تو کہیں میمو گیٹ، کہیں سرے محل تو کہیں برطانوی فلیٹس، کہیں قرضوں کی معافیاں تو کہیں جعلی ڈگریاں ، پھر دفعات 62اور63پر’’ پٹوکا‘‘(رونا دھونا)یہ دفعات 62 اور 63 ججوں اور جرنیلوں نے نہیں آپ نے بنائی تھیں! یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ آمریت نے ہمیشہ جمہوریت ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور جمہوریت کی انجینئرنگ اس وقت معرض وجود میں آئی جب سیاستدان برائیوں کو فروغ دینے کے لیے جرنیلوں اور ججوں کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنے گئے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تو کہا تھا پاناما لے کر عدالت نہ جائیں پارلیمنٹ میں مک مکا کرلیں ، کیوں نہ مانے؟ ۔ ہماری پارلیمانی قسمت ہی ایسی ہے کہ یہاں تو سپیکر بھی کبھی پارلیمنٹ کا نہیں ہوتا فقط حکومتی ہوا کرتا ہے۔ ورنہ کئی ممالک میں تو سپیکر اس قدر محترم ہوتا ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف الیکشن نہیں لڑتی، اور اسے پارلیمنٹ کا ولی سمجھتی ہے، پارلیمنٹ کا کوئی ولی ہوا تو ولی اللہ ہی ٹھہرا۔ سرکار ! یہ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ووٹ اور سیاستدان کو عزت دو، حکومت چراغ سحر ہوئی تو وزارتیں بانٹنے لگی۔ سیاستدانو! عزت، عدل وانصاف سے کمانی پڑتی ہے!! یہ بات قبیلہ عمران خان بھی جان لے۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی، عمرانی سیاست بھی اگر ووٹ کو عزت نہیں دے گی تو مکافات عمل سے گزرنا پڑے گا سارے جہاں کے لوٹے اور لٹیرے اکٹھے کرنے سے ، کبھی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے سے یا ایمپائر کے مس یوز سے کبھی سیاستدان کو عزت نہیں ملتی۔ ویسے بائی دا وے، سنا ہے کڑک پر اتنا بھی نہیں لگتا جتنی وہ رائلٹی کماتا ہے؟ سنا ہے کروڈ آئل کے کنوؤں سے چوری اب بھی جاری ہے۔ اگر پولیس سے سیاستدان تک حصے دار ہیں تو ایف آئی اے کہاں ہے؟ سنا ہے جہاں یورینیم کے سبب کینسر کی شرح زیادہ ہے وہاں سے اٹامک انرجی کا کینسر کیور پراجیکٹ کسی اور شہر شفٹ کرلیا؟ "بری" اے این پی نے شہر شہر یونیورسٹیاں بنادیں آپ نے کتنی بنائیں؟ کتنے برن سینٹر، کارڈیالوجی سنٹر، فارزنک لیبارٹریز بنا ڈالیں؟ فارمیسی کونسل آف کے پی کے کا کوئی منہ ماتھا بنا لیا کیا؟ تخت پشاور کی تخت لاہور سے مقابلہ کی کوئی راہ، نشانی کوئی ترجمانی ہے کیا کہ کل کو سیاستدان کے عزت اور نیا پاکستان یا "دو نہیں ایک پاکستان" کو تقویت ملے؟ نہ، نہ ۔۔۔۔ آج ہم ن لیگ اور تحریک انصاف کے ساتھ ہیں کیونکہ ان کے نزدیک پی پی پی توکسی شمار ہی میں نہیں۔۔۔۔ ہاں پشاور شوکت خانم ہسپتال پر عمران خان کو سیلیوٹ! تاہم یہ کسی کے پی کے حکومت ، پرویز خٹک یا شہرام ترکئی کی کرامت یا سیاسی کارنامہ نہیں، یہ تو ایک ایدھی طرز کی عمرانی بڑائی اور عظمت ہے کہ ہیلتھ اور تعلیم پر ذاتی توجہ ہے۔
پیارے سیاست دانو، بات تو عباسی صاحب کی درست ہے کہ، ججوں اور جرنیلوں سی عزت سیاستدانوں کی بھی ہونی چاہئے۔ ضرور ہو مگر جب وہ 7 تا 28 آئینی دفعات کے سنگ سنگ خواتین اور تعلیم کو عزت دیں گے۔ یہ دونوں جمہوریت کے سیف گارڈ ہیں۔۔۔۔ مرکز، پنجاب اور سندھ میں وائس چانسلروں ، بورڈ کے چئرمینوں اور مرکز میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمینوں کی تقرریوں میں سیاستدانوں نے عزت کمانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بابا رحمتے جو بھی ہو اور جہاں کہیں بھی ہو، اسے اس لئے عزت ملتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنے کیلئے محنت کرتا ہے اور محنت کا پھل ایسا ہی ہوتا ہے!۔ سیاستدان، جج، جرنیل سبھی قابل عزت، لیکن اس کیلئے اپنے آپ کو اہل ثابت کرنا پڑتا ہے! اب ایک اور آزمائش درپیش ہے۔ عزت کمانا ہے تو اس پر پورا اتریں۔ حکومت اور اپوزیشن مشاورت سے اچھے نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلی لاکر عزت کمائیں نا، کس نے روکا ہے؟
سیاستدان، جج اور جرنیل: سبھی قابل عزت!
May 07, 2018