عوام تبدیلی کا نعرہ قبول کرینگے؟فیصلہ ووٹوں سے ہوگا

تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد

مینارپاکستان لاہورمیں29اپریل کے تحریک انصاف کے جلسے کابہت چرچا رہا اور فیصل آباد کے حوالے سے تحریک انصاف کا یہ جلسہ اس لئے بہت اہم تھا کہ ضلع فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے 10 اور پنجاب اسمبلی کے 21 حلقوں سے پارٹی ٹکٹ کے کم از کم ایک سو سے زائد امیدواروں کو یہ کہا گیا تھا کہ ان کے باصلاحیت امیدوار ہونے کا اندازہ جلسہ میں ان کی طرف سے لائے گئے ورکروں کی تعداد سے کیا جائے گا۔ لہٰذا مریم نواز کا یہ تبصرہ تھا کہ لاہور کے جلسہ میں پورے پاکستان سے پارٹی ٹکٹوں کے امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ آدمی لانے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا جبکہ گزشتہ چند ماہ سے میا ںمحمد نوازشریف، میاں محمد شہبازشریف اور مریم نواز مختلف شہروں میں جن جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں جس کی تازہ مثال ساہیوال کا جلسہ ہے،اس جلسہ میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو سننے والوں کو ٹکٹ کے امیدواروں نے اکٹھا نہیں کیا تھا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف جو کہ پیپلزپارٹی کے بھگوڑوں کو اپنے اندر سمو رہی ہے، اسے مزید توجہ اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مسلم لیگ(ن) جو پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، اس کا 2018ء کے الیکشن میں مقابلہ کر سکے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ایک طرف پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ الیکشن 2018ء میں تخت لاہور کو جاتی امراء سے چھین لیں گے۔ کیا تخت لاہور بلاول ہاؤس کے اقتدار کے لئے پیپلزپارٹی کو مل سکے گا۔ جواب یہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا آئندہ وزیراعظم دیکھنے کا زرداری کا خواب ایک دیوانے کا خواب ہے اور سابق صدر آصف زرداری کا بلاول بھٹو زرداری کو الیکشن 2018ء کے نتیجے میں ملک کا وزیراعظم قرار دینا ان کا ایک ایسا بیان ہے کہ جسے مجذوب کی بڑ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ پنجاب بظاہر اب بھی مسلم لیگ(ن) کا ہی قلعہ ہے اور اگر مسلم لیگ(ن) کو بعض حلقوں میں کچھ انتخابی معرکوں کا سامنا کرنا پڑا تو وہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی بجائے تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔ تحریک انصاف اب بھی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعت ہے۔ الیکشن 2018ء کے دوران وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے سے دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھرے گی تو گویا 1990ء کے عشرے کے انتخابی معرکوں سمیت الیکشن 2002ء اور الیکشن 2008ء کی طرح پیپلزپارٹی جو دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آتی رہی ہے وہی منظر اب تحریک انصاف کا ہو گا۔ تحریک انصاف پنجاب میں بطور خاص پیپلزپارٹی کی جگہ لے چکی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں کی اکثریت اب بھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ہے۔ پنجاب کے لوگوں کو معلوم ہے کہ میاں محمد نوازشریف ملک کے اگلے وزیراعظم نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ(ن) کو پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں سے بھی بہت زیادہ کامیابیاں حاصل ہو سکیں گی اور میاں محمد نوازشریف نے ساہیوال کے جلسہ میں اشارہ کر دیا ہے کہ ملک کا اگلا وزیراعظم عوامی امنگوں کے مطابق سامنے آیا تو وہ میاں محمد شہبازشریف ہوں گے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ساہیوال کے اپنے بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن 2018ء میں مسلم لیگ(ن) کا مقابلہ عمران خان یا آصف علی زرداری کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ(ن) کا یہ مقابلہ ’’نادیدہ قوتوں‘‘ سے ہو گا۔ انہوں نے نادیدہ قوتوں کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور کہہ دیا کہ ملک کے عوام اب اس قدر باشعور ہیں کہ یہ نادیدہ قوتیں کون ہیں۔سب کو معلوم ہے کہ کون ایمپائر کی انگلی پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہا ہے اور وہ کون ہے جس نے چند سال پہلے ان ایمپائروں کو پیغام دیا تھا کہ تین سال تک طاقت کا سرچشمہ بننے والوں کو کراچی سے خیبر تک اقتدار کے خواہش مندوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی تھی۔ میاں محمد نوازشریف نے ساہیوال کے جلسہ میں زرداری کے اس بیان سے اپنے اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مشرف سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ زرداری اپنے اس بیان سے مکر گئے ہیں کہ انہوں نے ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا بیان میاں محمد نوازشریف کی ترغیب پر دیا تھا۔ اگر وہ اتنے ہی معصوم تھے کہ کل میاں محمد نوازشریف کے اشاروں پر چل رہے تھے تو قوم کو اتنا ضرور بتا دیں کہ وہ آج کس کی کٹھ پتلی ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان ادارے کا پٹھو بن گیا ہے اور دوسرا پہلے ہی تھا۔ وہ دونوں لاکھوں عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ وہ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دراصل وہ دونوں صرف مسلم لیگ(ن) کے حریف ہیں جبکہ اقتدار کے لئے دونوں کا قبلہ نما ایک ہی ہے۔ آصف علی زرداری کے لئے وہ اسٹیبلشمنٹ ہے اور عمران خان کے لئے وہ ’’ایمپائر‘‘ ہے جس نے عمران خان کی پشین گوئی کے مطابق انگلی اٹھا کر انہیں ’’آؤٹ‘‘ قرار دلوا دیا ہے اور اب مسلم لیگ(ن) کو آؤٹ کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان پر سیاست کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں لیکن وہ عوام کو بتانا چاہیں گے کہ ایک راستہ ابھی بھی کھلا ہے کہ عوام اگر انہیں اقتدار میں لا کر 70برسوں کی پسماندگی میں ترقی کے سفر کو مزید تیز کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس الیکشن کو ریفرنڈم سمجھ کر لڑیں اور مسلم لیگ(ن) کو اتنے ووٹ دیں کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی دوتہائی اکثر یت سے بھی زیادہ پہنچ جائیں اور اس قانون کو پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کیا جا سکے جس کے ذریعے انہیں بیٹے سے اس کی کمپنی کے چیئرمین ہونے کے باوجود تنخواہ نہ لینے پر انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ میںنے پانچ ارب امریکی ڈالر ٹھکرا کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا چیلنج قبول کیا۔ ملک میں موٹرویز اور پختہ سڑکوں کا جال بچھا کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کی تاریخ بنائی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم کر کے ملک پر چھائے اندھیروں کو مٹایا اور جس نے ملک کو دہشت گردی کے خطرے سے نجات دلا کر یہ ثابت کیا کہ ملک میں باصلاحیت قیادت موجود ہو تو دہشت گرد کبھی قومی سلامتی کے لئے چیلنج نہیں بن سکتے۔ بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کی کوششوں سے کراچی میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کے سنگھاسن پر طاری کپکپاہٹ کے حوالے سے اپنے ردعمل کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ میاں صاحب کراچی میں کیا گیم کھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی متحدہ سے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا حساب مانگ لیا ہے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا حساب ایم کیو ایم کے ارکان سندھ اسمبلی سے پیپلزپارٹی سینٹ کے ووٹوں کی صورت میں وصول کر چکی ہے اور اب ایم کیو ایم سے بلاول بھٹو نے یہ حساب اس لئے مانگا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے الیکشن 2018ء میں مسلم لیگ(ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد کر کے پیپلزپارٹی سے سندھ کے اقتدار کا سنگھاسن چھین لینے کے در پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ زرداری تخت لاہور چھینتے چھینتے اب محسوس کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ن) کے اتحاد سے سندھ کا اقتدار پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سے جا رہا ہے۔ جہاں تک سیاسی جلسوں کی روایت کا تعلق ہے برصغیر پاک و ہند میں یہ روایت بڑی پرانی ہے اور ان سیاسی جلسوں سے عوام میں سیاسی شعور ضرور پیدا ہوتا ہے لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں کہ سیاسی جماعتوں کے جلسے انتخابات میں ہارجیت کا پیمانہ قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ خاص طور پر ان جمہوری ممالک میں جہاں سیاسی جماعتیں نظریہ اور منشور کی بجائے شخصیات کے گرد ہی گردش کرتی ہوں۔ پاکستان اپنی زندگی کی 70بہاریں دیکھ چکا ہے۔ قوموں کی زندگی میں پہلے سو برس بچپن کے ہوتے ہیں۔ ایک صدی کے بعد وہ لڑکپن میں داخل ہوتی ہے اصولی طور پر پاکستان ابھی زمانہ بچپن میں ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ سیاسی جماعت نہیں تھی بلکہ ایک تحریک تھی اور اس تحریک کی قیادت قائداعظم محمد علی جناح کر رہے تھے اور یہ تحریک مختصر سے عرصہ میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ دراصل یہ تحریک برصغیر کے مسلمانوں نے افرنگی سامراج کے خلاف شروع کی اور افرنگی نے اس جنگ آزادی کو غدر کا نام دیا۔ علامہ فضل حق خیرآبادی سے لے کر قائداعظم محمد علی جناح تک اس تحریک کے قائدین کی جدوجہد کی تاریخ اس قدر روشن اور درخشاں تاریخ ہے کہ باقی اقوام اس کے مقابلہ میں کمزور نظر آتی ہیں۔ کوئی اس امر سے اتفاق کرے یا نہ کرے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کو تحریک کی بجائے سیاسی جماعت کے ڈھانچہ میں تبدیل کرنا تھا اور قائداعظم کے قیام پاکستان کے بعد مختلف مقامات پر جلسوں سے خطاب افسروں اور انتظامی مشینری سے خطابات اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ کو ایک سیاسی اور جمہوری جماعت میں تبدیل کرنے کے لئے خاکہ تیار کر چکے تھے لیکن ان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور مسلم لیگ سیاسی جماعت کی بجائے ایک گروہی اور شخصی پارٹی میں تیزی سے تبدیل ہوتی چلی گئی اور اس تبدیلی میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے بھرپور کردار ادا کیا۔ سیاسی قیادت چونکہ نابالغ تھی لہٰذا اسٹیبلشمنٹ نے اسے اپنی انگلیوں کے اشارے پر چلنے کی ایسی تربیت دی جس کے نتیجہ میں سیاسی جماعت کی بجائے شخصیت عوام کی توجہ کا محور بن گئی اور بدقسمتی سے عوام جمہوریت کے ثمرات شخصیت میں تلاش کرنے لگی۔ پاکستان میں 70سال بعد جو جمہوریت کا ارتقائی سفر رکا ہوا تھا اس ارتقائی سفر نے اپنی منزل کی طرف اپنے سفر کا آغاز کر دیا ہے اور یہی تبدیلی ہے جس کے مستقبل میں مثبت نتائج برآمد ہونے کی ہمیں ایک روشن کرن نظر آ رہی ہے اور جمہوریت کے درخت پر بہار کی ہوا نظر آتی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں الیکشن 2018ء کی سیاسی جماعتیں بھرپور تیاری کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں داخل ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں یقینی طور پر ماضی میں ہونے والے انتخابات کے مقابلہ میں اگر بروقت انتخابات ہوئے تو ان کا رنگ جداگانہ ہو گا اور تمام تر دشنام تراشی اور الزامی سیاست و زبان کے باوجود عوام اپنے سیاسی شعور کا جو مظاہرہ کریں گے اس سے جمہوریت کے ارتقائی سفر کی ایک نئی کہانی سامنے آئے گی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی دن میں چار مختلف مقامات پر سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جلسوں کا اہتمام کیا اور عوام نے ان جلسوں میں بھرپور شرکت بھی کی۔ پیپلزپارٹی نے کراچی میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا اور لاہور میں تحریک انصاف نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا لیکن سیاسی زاویہ نگاہ سے لاہور کے تحریک انصاف کے جلسے میں لاہور کے لوگ کم تھے بلکہ دیگر شہروں سے جس طرح ابتدا میں ذکر کیا گیا ہے تحریک انصاف کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے ذریعے لوگوں کو دوسرے شہروں سے بسوں میں لایا گیا تھا بلکہ صوبہ خیبر پی کے کی صوبائی حکومت پر بھی الزام رہا کہ اس نے تمام سرکاری وسائل جھونک دیئے اور لوگوں کو ایسے لایا گیا جیسے کہ صوبہ سرحد میں جلسہ ہو رہا ہے اس لئے کہ مینار پاکستان میں عمران خان نے جو آج سے تین سال قبل اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا وہ جلسہ اس لحاظ سے کامیاب تھا کہ اس میں لاہور سمیت ملک کے دیگر شہروں سے نوجوان اور تحریک انصاف کے ورکر خود آئے تھے جبکہ ایسا اس دفعہ نہیں ہوا، لوگ آئے نہیں تھے انہیں لایا گیا تھا۔ البتہ تحریک انصاف نے مجوزہ انتخابات کے حوالہ سے اپنا گیارہ نکاتی منشور پیش کر دیا۔ اس منشور پر بات ہو سکتی ہے کہ کہاں تک یہ قابل عمل ہے اور کس حد تک محض نعرہ کا ہی درجہ رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کا لاہور جلسہ دیگر جلسوں کے مقابلہ میں یوں سیاسی جلسہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان نے اپنے ترکش کے تمام تیر عیاں کر دیئے ہیں اور غالباً عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی کی طویل ترین تقریر کی اور اپنی روایت کے برعکس اپنے سیاسی مخالفین پر الزام تراشی نہیں کی اور ایک نئے عمران خان کے روپ میں سامنے آئے۔ میاں محمد نوازشریف نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلسہ لاہور کا، شرکاء پشاور کے اور ایجنڈا کسی اور کا۔ یہ دلچسپ تبصرہ اپنی جگہ افکاہی سیاست کا غماز ہے۔ اس کے ساتھ ہی میاں محمد نوازشریف نے عمران خان کو منافق، آصف علی زرداری کو دھوکے باز، جنرل(ر) پرویزمشرف کو بش کی ایک کال پر لیٹ جانے والا کہا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے رمضان شریف میں اپنی رابطہ عوام مہم جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے 70سالہ تاریخ بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں حکمرانی وہی کرے گا جس پر پنجاب کا سایہ ہو گا اور پنجاب میں میاںمحمد نوازشریف آج بھی ایک مقبول لیڈر کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی پارٹی کی عمارت اس وقت تک ایک مضبوط قلعہ کا درجہ رکھتی ہے جب تک ان کی جماعت مسلم لیگ(ن) کہلاتی ہے اور مسلم لیگ(ن) پنجاب میں دیگر جماعتوں کے مقابلہ میں آج بھی مقبول ترین جماعت ہے۔ فیصل آباد بھی پنجاب کا ایک اہم سیاسی مرکز ہے اور فیصل آباد میں مسلم لیگ(ن) کے مقابلہ میں دیگر جماعتوں کے امیدوار کمزور نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے میاںمحمد نوازشریف کو اقامہ رکھنے پر نااہل قرار دیا ہوا ہے اور نوازشریف برابر کہہ رہے ہیں کہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ مجھے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل قرار دیا گیا ہے۔ نااہل ہونے کے باوجود کیونکہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے جونہی مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنا پانچ سالہ دوراقتدارکی مدت پوری کرے گی تو عبوری حکومت کن افرادپر مشتمل ہو گی اور کیا مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور پیپلزپارٹی کی قیادت عبوری صوبائی حکومتوں اور وفاقی عبوری وزیراعظم کے نام پر اتفاق کر سکے گی اور اگر مشاورت سے حکومت وجود میں آ گئی تو پھر یقینا دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے معاملہ طے ہو گا۔ بصورت دیگر عدالت کو اس پر فیصلہ دینا پڑے گا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی جو کہ گزشتہ 2013ء کے انتخابات میں شکست کھا گئی تھی 2018ء کے الیکشن میں اس کا وجود نظر نہیں آ رہا اور ایسے لگتا ہے کہ آصف علی زرداری نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا اپنی سیاست کی وجہ سے سیاسی جنازہ نکال دیا ہے اور پیپلزپارٹی کے نیب اور کرپشن میں ملوث بہت سے رہنما اور ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے لیڈران موسمی پرندوں کی طرح اڑتے ہوئے تحریک انصاف کی چھتری پر بیٹھ کر پناہ لے رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان ان لوگوں کو جنہیں کل تک وہ کرپٹ اور بدعنوان کہتے تھے انہیں انتخابات کے دوران ٹکٹیں دیں گے۔ البتہ پنجاب میں تحریک انصاف ایک ابھرتی ہوئی سیاسی قوت کے طورپر سامنے ضرور آئے گی اور مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ہی ہو گا۔ میاںمحمد نوازشریف ہی اپنی جماعت کی قیادت کرتے نظر آئیں گے لیکن کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ عبوری حکومت کے وجود میں آنے پر میاں محمد نوازشریف جس پروٹوکول کے اب مزے لے رہے ہیں یہ پروٹوکول عبوری عہد میں بھی حاصل ہو گا۔ مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف کے مقابلہ میں ایک برتری اور انفرادیت یہ بھی حاصل ہے کہ مسلم لیگ(ن) انتخابی داؤ پیچ اور الیکشن لڑنا جانتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں تحریک انصاف طفل مکتب ہے۔ باقی رہی بات کہ میاں محمد نوازشریف سے سیاست چھڑا دیں گے ایسی سوچ احمقوں کی جنت میں بسنے والی بات ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا دوسرا نام نوازشریف ہے البتہ الیکشن 2018ء کے انتخابی معرکے میں عوام تبدیلی کے نعرے کو ووٹ دیتی ہے یا کہ نہیں، اس کا فیصلہ یقینا عوام کے ووٹوں سے ہی ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن