ایک علمی ومذہبی شخصیت

قرآن کریم دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانیوالی وہ عظیم مقدس کتاب ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ نے ختم المرسلین حضرت محمدؐ پر نازل کی اور جس میں کوئی قیامت تک زیر زبر کی تبدیلی نہیں کر سکے گا۔ اس کا احترام کرنے پڑھنے اور پڑھ کر اس پر عمل کرنے والوں کے لئے یہ دنیا و آخرت میں کامیابی و سرخروئی کا ضامن ہے اور جن لوگوں نے قرآن کریم ناظرہ و حفظ و تجوید کے لئے کیا اور معاشرہ میں قرآن کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے محنت کی دنیا انہیں اس دنیا آب و گل سے جانے کے بعد اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے اور ان کی آنیوالی نسلیں نہایت آسودگی سے زندگی بسر کرتی ہیں اور لوگ ان کو عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج سے تقریبًا چالیس سال قبل یزمان میں ایک ایسی شخصیت الحاج صوفی احمد دین نے کھلے آسمان تلے غریب اور نادار بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم و تدریس دینے کا آغاز کیا جہاں چند ماہ میں قرآن پاک پڑھنے والے بچوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی تو بابا جی سرکار صوفی احمد دین نے مخیر حضرات کے تعاون سے ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جو چند ماہ میں طلباء وطالبات کی تدریس اور پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے لئے تیار کر لی گئی بابا جی نے بچوں کو قرآن حفظ کرانے کا بھی آغاز کر دیا اور ایک سال بعد یہاں سے کئی حفاظ بن گئے اس سے نہ صرف بابا جی کا حوصلہ بلند ہوا بلکہ علاقہ بھر میں جامعہ نورالمدارس یزمان کی عمدہ کارکرکردگی کا ذکر ہونے لگا اور بابا جی نے عوامی شوق کے پیش نظر جامعہ مسجد سے ملحقہ جگہ پر کئی کمرے تیار کئے جہاں قرآن حفظ اور درس نظامی کی تعلیمات شروع کر دی یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو بلامعاوضہ تعلیم‘ طعام اور رہائش دی گئی جس کی وجہ سے یہاں سے ہر سال حفاظ اور عالم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تحصیل یزمان کے مختلف دیہات میں بطور امام مسجد کام کرنے لگے اور انہوں نے بھی اپنے استاد محترم کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے واں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کو فروغ دینے کے لئے اپنا معمول بنایا جس سے آج یزمان کے قریہ قریہ میں قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم عام ہے اور تقریباً ہر گاؤں میں ایک حافظ قرآن پاک ہے بابا جی سرکار نے اپنی اس درس گاہ کو وسعت دیتے ہوئے یہاں کئی مدرسین کی خدمات حاصل کیں جن میں انکے صاحبزادے مفتی اقبال احمد بھی شامل تھے ۔ باباجی کا کافی حد تک ہاتھ بٹانے لگے تھے مدرسہ ہذا میں تعلیم و تدریس کا کام عروج پر تھا کہ اسی دوران بابا جی اﷲ کو پیارے ہو گئے جن کو جامعہ نورالمدارس کے پڑوسی‘ غریب اور نادار لوگ اور وہ ہزاروں لوگ جن کے بیٹے بیٹیوں پوتوں اور نواسوں نے ان سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی وہ رمضان المبارک کی آمد کے وقت بابا جی کو اس لئے یاد کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں جامعہ نورالمدارس میں افطاری کے وقت عید کا سماں ہوتا تھا جہاں ہر ایک کے لئے لنگر عام ہوتا تھا اور بابا جی اکثر مستحقین کی گھریلو ضروریات بھی پوری کر دیا کرتے تھے لیکن بابا جی کے انتقال کے بعد مفتی اقبال احمد نے اپنے بھائیوں اشفاق احمد اور محمد اعجاز کے تعاون سے نورالمدارس کو ایک مثالی درسگاہ بنانے کے لئے شب و روز کام کیا اور بچوں کو قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ پرائمری‘ مڈل‘ میٹرک‘ ایف اے اور بی اے تک تعلیم دینے کا کام شروع کر دیا جس کے حوصلہ افزاء نتائج آنے پر انہوں نے مرکزی عیدگاہ یزمان کی شاندار عمارت میں بابا جی سرکار کی خواہشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچیوں کے لئے ایک علیحدہ درسگاہ بنائی جس کا انتظام اور تعلیم امور بیگم مفتی اقبال احمد نقشبندی سرانجام دے رہی ہے اس زنانہ درسگاہ میں طالبات کو قرآن پاک و حدیث کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ میٹرک سے بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کی سہولت میسر ہے اور کئی طالبات یہاں سے بی اے کر چکی ہیں یہاں بچیوں کو فری تعلیم‘ طعام اور رہائش دی جاتی ہے جبکہ یہاں تعلیمی امور اور طعام وغیرہ پر سالانہ اخراجات تقریباً ساٹھ لاکھ روپے ہو رہے ہیں جو مخیر حضرات اور تعلیم دوست حلقوں کے تعاون سے بطریق احسن پورے ہو رہے ہیں یہ سب کچھ بابا جی سرکار الحاج صوفی احمد دین کی دعاؤں کا مظہر ہے اور یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہاں سے فارغ ہونیوالے کئی طلباء ازہر یونیورسٹی مصر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہ قرآن کریم کی برکت اور معجزہ ہے کہ یہاں سے چند سال قبل قرآن پاک ناظرہ کی تعلیمات کا آغاز کیا تھا وہاں شاندار تعلیمی ادارے معرض وجود میں آ چکے ہیں دعا ہے کہ بابا جی اﷲ سدا تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔

ای پیپر دی نیشن