کرونا کی ویکسین کب تیار ہوتی ہے کچھ پتہ نہیں لیکن اس میں کچھ وقت ضرور لگ سکتا ہے چونکہ مشکل حالات میں وقت تیزی سے نہیں گذرتا، لمحے گھنٹے، گھنٹے دن، دن ہفتے اور ہفتے مہینوں جیسے ہو جاتے ہیں سو کرونا کی ویکسین کا انتظار بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب تک ویکسین تیار ہو اس وقت تک نجانے کتنے انسان زندگی کی بازی ہار چکے ہوں گے۔ پاکستان میں بھی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں ہر گذرتے دن کے ساتھ کرونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کا صبر بھی جواب دے رہا جن کے کارخانے، شاپنگ مالز، ریسٹورانٹس، دکانیں بند ہیں سب حکومت سے رعایت مانگ رہے ہیں اس مسئلہ میں حکومت کی طرف سے تعاون یا مطالبات نہ ماننے پر انجمن تاجران نے اپنی مرضی کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ حکومت دس مئی سے لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کا اصولی فیصلہ کر چکی ہے۔ چند روز قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان نے لاک ڈاؤن کو بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے مرحلہ وار کھولنے کا اشارہ دیا تھا اب ہر جگہ اور ہر سطح پر لاک ڈاؤن کے خاتمے یا نرمی کی باتیں ہو رہی ہیں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اجلاس میں ملک بھر میں تجارتی مراکز صبح نو سے شام پانچ بجے اور رات آٹھ سے دس بجے تک کھولنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں جبکہ دکانوں کے اوقات کار کے حوالے سے مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔ اجلاس میں ہونے والی بات چیت کے بعد ملک میں تجارتی مراکز گیارہ مئی سے کھولے جانے کا امکان ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے حکومت کی طرف سے آج باضابطہ اعلان متوقع ہے۔پائپ ملز، الیکٹریکل کیبلز ، اسٹیل، ایلمومینیم اور برتن سازی کی صنعتیں کھولنے کی سفارش بھی تیار کی گئی ہے۔ سینٹری ، پینٹس ، ہارڈ وئیر اسٹورز کھولنے پر بھی غور کیا گیا ہے۔ بہت سارے شعبے بند رکھنے کے حوالے سے بھی اتفاق کیا گیا ہے لیکن جو شعبے کھولے جا رہے ہیں اس کے بعد کرونا کے پھیلنے کا خطرہ بڑھے گا ہم ابتدائ سے بہتر ضابطہ اخلاق کے تحت کرفیو کے حق میں تھے تاکہ کم وقت میں بہتر نتائج لیے جاتے لیکن حکومت نے سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے کرونا کو قابو کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا اس کے نتیجے عام آدمی کی حالت مزید کمزور ہوئی کاروباری طبقے کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا اور جان لیوا وائرس بھی پھیلتا رہا اور اب یہ تعداد ساڑھے تیئسہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں گے ممکن ہے یہ تعداد چوبیس ہزار تک پہنچ ہو گی۔ بلوچستان میں کرونا کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے صوبائی حکومت نے انیس مئی تک لاک ڈاؤن میں اضافہ کیا جب کہ وہاں انجمن تاجران نے اس توسیع کو مسترد کرتے ہوئے دس مئی سے دکانیں کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔
صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کہتی ہیں کہ لاہور کرونا کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ ممکن ہے آج لاہور میں متاثرین کی تعداد تین ہزار سے بڑھ جائے۔ لاہور میں وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر کرونا کے حوالے سے خطرناک علاقوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا امکان کم ہے۔ حکومت اس حوالے سے مختلف حکمت عملی پر غور کر رہی ہے۔ ایسے علاقے جہاں خطرہ زیادہ ہے وہاں سختی کی جائے گی اور جہاں حالات معمول پر ہیں وہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔
کرونا وائرس کے دوران اب تک وفاقی حکومت اتحاد پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس حوالے ملک بھر میں یکساں پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ صوبے اپنے طور فیصلے کرتے رہے اور وفاق الگ ہدایات جاری کرتا رہا۔ نو مئی کے بعد ایک مرتبہ پھر ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ صوبوں نے بھی سٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کیا پنجاب میں تاجروں کو حکومتی رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ بہرحال اب آگے بڑھنا ہے ہمیں کرونا کے ساتھ جینے کی عادات کو اپنانا ہو گا۔ ہمیں خود کو منظم اور اس نئے طرز زندگی کو اپنانا ہو گا۔ گوکہ عوام نے لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھی احتیاطی تدابیر کو مکمل طور پر نظر انداز کیے رکھا ہے شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں احتیاطی تدابیر پر عمل کیا گیا ہو ہر جگہ احتیاطی تدابیر کے پرخچے اڑائے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ وقت منظم ہونے کا تھا لیکن عوام نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اب نو مئی کے بعد مختلف شعبے کھلیں گے تو لوگوں کے جمع ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اس طرحکرونا کو پھیلنے کا موقع بھی ملے گا۔ اب حکومت اس پوزیشن میں بھی نہیں ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جائے۔ غربت اور بیروزگاری کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو ذہنی دباؤ اور بھوک سے بچانے کے لیے کاروبار تو کھولنا ہی ہوں گے اب ساری ذمہ داری لوگوں پر ہے کہ وہ اس نرمی کے دوران احتیاط کرتے ہیں یا نہیں۔ احتیاط ہی زندگی ہے، احتیاط ہی علاج ہے، احتیاط ہی بچاؤ اور تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ حکومت پر تنقید ضرور کریں لیکن حکومت پر تنقید کرتے ہوئے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے بھی سوال کریں کہ آپ نے کتنی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں کہ کرونا سے تحفظ اور علاج کے لیے ابھی کافی انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ وائرس کا علاج کرنے کے لیے ابھی ہومیوپیتھی طریقہ علاج میں کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی۔ برادرم ڈاکٹر صفدر محمود نے کرونا کے علاج کے لیے ہومیوپیتھی کا ایک نسخہ اپنے کالم کے ذریعے قارئین تک پہنچایا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی اس کاوش کے بعد امید تھی کہ ہمارے ہاں ہومیوپیتھ اس سلسلہ میں مزید رہنمائی کریں گے لیکن کوئی حوصلہ افزا پیشرفت نہیں ہو سکی۔ ہومیو ادویات بنانے والی بڑی بڑی مقامی کمپنیوں نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے حالانکہ ہومیوپیتھی میں کرونا سے تحفظ کے لیے آسانی سے ایک ہفتے میں نوسوڈ بنائی جا سکتی ہے۔ ہومیوپیتھی کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں یہ جانتا ہوں کہ اس میں علاج علامات کی مشابہت سے کیا جاتا ہے۔کرونا کی علامات فلو، کھانسی،سانس لینے میں دشواری اور جسم میں درد بتائی جاتی ہیں۔ ان علامات کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل ادویات کرونا کے علاج اور تحفظ کے لیے مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ ڈف تھری نم 200، تشخیص کے پہلے دن چند قطرے، انفلوانزم200 چند قطرے دوسرے دن، بیسی لی نم200 چند قطرے تیسرے دن، یوپاٹورنی نم200 چند قطرے چوتھے دن۔ تین دن وقفے کے بعد پھر اسی ترتیب سے ادویات کا استعمال کرونا کے علاج میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بارے صاحب علم ہومیوپیتھ کو اپنی رائے ضرور دینی چاہیے تاکہ ملک و قوم کو بڑی مصیبت سے بچایا جا سکے۔