مولانا اور ٹی وی اینکرز کا ’’تنازع‘‘

May 07, 2020

سعد اختر

معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل اورٹی وی اینکرز کے مابین جنم لینے والا تنازع ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس ’’تنازع ‘‘ کی زد میں آنے والے تین اینکرز پر الزامات اور گالیوں کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ تضحیک کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو اِن اینکرز کیخلاف استعمال نہ کیا جا رہا ہو۔ سب کچھ اس طرح اور اس منظم طریقے سے ہو رہا ہے کہ شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم کون ہیں؟ کس معاشرے ، دین سے ہمارا تعلق اور ہم کس ملک کے باشندے ہیں؟ ہمیں یہ ضرور سوچنا پڑیگا۔ حالات اس قدر سنگین ہو نگے یا ہو جائینگے، کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ بہرکیف جو ہو رہا ہے، وہ تو ہونا ہی تھا۔سب جانتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل بہت بڑے مذہبی سکالر ہیں، دین اسلام کے علاوہ قانون کی تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے۔ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع اور ماحول نے اُنکے افکار کو چمکایا اور جِلا بخشی، زورِ خطابت انہیں شہرت کی بلندیوں تک لے گیا۔ مولانا صاحب ایسے مذہبی سکالر ہیں جن کے ’’فالورز‘‘ نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بلا شبہ اُن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کورونا اور احساس کفالت پروگرام کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے پرائم منسٹر ہائوس کے وسیع و عریض لان میں گزشتہ سے پیوستہ ہفتے مختلف میڈیا ہائوسز کے نمائندگان اور میڈیا اینکرز کے ساتھ ایک میڈیا ٹاک کا اہتمام کیا جسے تمام نجی ٹی وی چینلز نے براہ راست ٹیلی کاسٹ بھی کیا۔ وزیراعظم نے گفتگو کی، اور اینکرز پرسنز نے سوال ۔ وزیراعظم کی طرف سے اُنکے جواب بھی دئیے گئے۔ فارمیٹ کے مطابق مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے پروگرام کے آخر میں دعا کرانی تھی۔ دعا سے پہلے مولانا کو میڈیا کے حوالے سے کچھ کلمات بھی کہنے پڑے۔ کہا، کہ میڈیا جھوٹ بولتا اور جھوٹ دکھاتا ہے۔ مزید کہا کہ ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک سے جب اُن کی گفتگو ہوئی تو اُس نے کہا’’اپنے چینل سے جھوٹ نکال دوں تو ہمارا چینل ہی بند ہو جائے۔‘‘ مولانا نے وزیراعظم کو ملک کا سب سے زیادہ دیانت دار شخص بھی قرار دیا۔ کچھ آیات بھی پڑھیں جن کا ترجمہ بھی سنایا۔ انہوں نے ملک کی سلامتی اور کورونا کے خاتمے کیلئے بھی دعا بھی کی۔ یوں یہ میڈیا مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔ لیکن اس سے اگلے ہی روز حامد میر، کامران شاہد اور عبدالمالک نے مولانا پر بے جا تنقید شروع کر دی۔ میڈیا کے حوالے سے اُنکے ’’کلمات‘‘ کو لیکر اپنے اپنے چینل پر پروگرام کا فارمیٹ بنایا اور مولانا کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ عبدالمالک نے تو حد ہی کر دی، مولانا کو آن لائن لیا اور سوالات کرنے شروع کر دئیے۔ حتیٰ کہ انہیں اپنے کہے کلمات پر معذرت یا معافی پر مجبور کر دیا۔مولانا طارق جمیل کو برسرِ عام میڈیا کے حوالے سے اپنے کہے الفاظ پر ’’معافی‘‘ مانگنا پڑی۔ جس پر پورے ملک میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ مولانا کے ماننے یا چاہنے والوں نے عبدالمالک، کامران شاہد اور حامد میر پر اتنی لفظی گولہ باری کی ، اتنی گالیاں دیں کہ وہ اس یلغار کے سامنے چپ ہو کر رہ گئے۔ سوشل میڈیا نے یہ سب کچھ دکھایا اور سب نے دیکھا۔
مولانا طارق جمیل نے میڈیا کے حوالے سے اپنے کہے الفاظ پر جس فراخ دلی سے معذرت کا اظہار کر کے جس بڑے پن کا ثبوت دیا، مقتدر حلقوں میں اُنکے اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔ ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ حامد میر، عبدالمالک اور کامران شاہد نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صرف اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے ایک مذموم اور گھٹیا حرکت کی۔ یہ حرکت ایسے ’’شخص‘‘ کیخلاف ہوئی جس کے چاہنے والوں کا ایک وسیع حلقہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ اینکرز کو سوالات کا حق ضرور حاصل ہے لیکن روبرو شخصیت کے مرتبے اور وقار و حیثیت کا خیال اور لحاظ رکھتے ہوئے سوال یا سوالات کی ترتیب کا خیال رکھنا بھی انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ خصوصاً کسی مذہبی سکالر کے ساتھ اس طرح کا سلوک اور اُنکے ساتھ اس طرح کی گفتگو نہایت قابل مذمت ہے۔ مولانا طارق جمیل نے میڈیا سے معذرت کر کے جس بڑے پن کا ثبوت دیا، میڈیا کے ان تینوں اینکرز کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ بھی مولانا کی تقلید کرتے ہوئے مولانا سے معافی یا معذرت کا اظہار کریں۔ ہر شخص یا شخصیت کی اپنی ایک خاص حیثیت ہوتی ہے اُسے مجروح کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ چینل پر بیٹھ کر جس کی چاہے پگڑی اچھال دیں۔ زمانہ بدل گیا ہے، زمانہ دیکھ بھی رہا ہے، کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں، تینوں اینکرز خود بہت سمجھدار ہیں، امید ہے بات کو سمجھیں گے۔ معاشرتی اور مذہبی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے مولانا سے معذرت کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگائیں گے۔

مزیدخبریں