وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو ٹوئٹ پیغام میں نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لاک ڈائون کے فرصت کے لمحات کو غنیمت جان کر مصنف فراس الخطیب کی کتاب Lost Islamic History پڑھ ڈالیں۔ اسلامی تاریخ فراس الخطیب کا خصوصی موضوع ہے جس پر ان کی نگارشات کو سند کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ گزشتہ دس سال (2010) سے امریکی ریاست کی الی نائے کے برج ویو کے یونیورسٹی سکول میں اسلامی تاریخ پڑھا رہے ہیں۔ یہ کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری۔ وزیراعظم کے پیغام سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اگرچہ مختصر ہے‘ لیکن موضوع پر سیرحاصل بحث کے باعث مستند اور مفید ہے۔ مصنف کی اصل کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔ وزیراعظم کا اس پر مختصر تبصرہ یہ ہے کہ کتاب میں اسلامی تہذیب کے پیچھے محرک جذبے کے بارے میں بتایا گیا ہے جس نے اسلامی تہذیب کو اسے اپنے عہد کی عظیم الشان تہذیب بنا دیا اور پھر اسکے زوال کے اسباب بتائے گئے ہیں۔
گزشتہ صدی میں اس موضوع پر مسلمان محققین نے بیش قیمت تصانیف چھوڑی ہیں۔ ان مصنفین میں برصغیر کی عظیم علمی شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم اور شامی عالم امیر شکیب ارسلان شامل ہیں۔ دونوں مصنفوں کی اصل تحریریں عربی میں ہیں۔ بعد میں مولانا ندوی مرحوم نے اپنی کتاب کا اردو میں اس نے خود ہی ترجمہ کیا۔ اسلامی تہذیب کے زوال سے دنیا نے کیا کھویا ہے۔ کافی عرصہ ہوا کتاب کا پہلا اردو ایڈیشن پڑھا‘ معلومات اور تجزیات کا سمندر ہے۔ اسی طرح اور بھی بعض مستند تاریخ دانوں نے اسی عنوان کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جنہیں مطالعہ کا شوق ہے اور اپنے اس ذوق کی تکمیل کی خاطر بلند پایہ اور محققانہ لٹریچر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ماضی کے سیاستدانوں میں مرحوم وزیراعظم سر فیروز خان نون مطالعہ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری کے علاوہ پنجاب کے کلچر کے بارے میں ایک دو کتابیں لکھی تھیں۔ پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ میاں محمد ممتاز خان دولتانہ کی‘ جو وزیراعظم بھٹو مرحوم کے دور میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر بھی رہے‘ ذاتی لائبریری کا بڑا چرچا تھا۔ دیگر جن لوگوں نے گھروں میں ذاتی لائبریریاں بنائیں‘ ان میں سیاستدان بھی شامل تھے۔ مثلاً ذوالفقار علی بھٹو‘ فاروق لغاری‘ امجد فاروق کھوسہ‘ آغا بدرالدین درانی (بلوچستان کی پہلی اسمبلی کے سپیکر)‘ میر علی احمد تالپور‘ میلسی کے زمیندار سعود صاحب نے اپنے گائوں میں شاندار لائبریری سنائی جن میں نایاب کتابوں کا معتدبہ ذخیرہ ہے۔ ایک نہایت ہی شائستہ اور دیندار بیورو کریٹ عبدالجبار شاکر مرحوم نے اپنے آبائی شہر شیخوپورہ میں زبردست لائبریری بنا رکھی تھی۔ اس فہرست میں گوجرانوالہ کے ضیاء اللہ کھوکھر کا نام بھی آتا ہے۔ معروف قانون دان اور ماہر آئین ڈاکٹر خالد اسحاق مرحوم اچھی کتابوں کے دیوانے تھے۔ وہ اردو اور انگریزی کے علاوہ عربی اور فارسی بھی جانتے تھے۔ انکے برصغیر کے تمام بڑے بڑے اردو‘ انگریزی اور عربی کے کتب فروشوںسے ذاتی تعلقات تھے۔19ویں صدی کے اواخر میں اردو نثر میں کافی پختگی آچکی تھی، اس عرصے میں بعض ادیبوں نے بڑی خوبصورت نثر لکھی بلکہ مولوی محمد حسین آزاد کی طرح اپنے اسلوب میں منفرد ٹھہرے اگرچہ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی بڑی خوبصورت نثر لکھی لیکن اسلوب کی انفرادیت کے لحاظ سے وہ بھی مولوی محمد حسین آزاد سے پیچھے ہیں۔
ابتداء میں اردو میں حقیقی کتابیں زیادہ لکھی گئیں، اس حوالے سے بعض اداروں، دارالمصنفین اعظم گڑھ (یوپی) انجمن ترقی اردو ہند، دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ ریاست حیدر آباد دکن، مطبع نول کشور اورخدابخش اردو لائبریری پٹنہ رضا لائبریری رامپور‘ بڑے مشہور ہوئے۔ لکھنے والوں میں مولانا عبدالحلیم شرر اور شمس العلماء مولوی نذیر احمد دہلوی کے اصلاحی ناولوں نے نہ صرف دھوم مچائی بلکہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق بھی پیدا کیا۔ مولوی عبدالرزاق کانپوری نے 20ویں صدی کے ابتدائی برسوں میں صاحب البرا مکہ، نظام الملک طوسی اور یادایام تصنیف کرکے بڑی شہرت پائی۔
جہاں تک فراس الخطیب کتاب کا تعلق ہے تو وزیراعظم سے گزارش ہے کہ وہ کسی سرکاری اشاعتی ادارے کے زیراہتمام اس کا ترجمہ کرکے چھپوا دیں اور مناسب قیمت پر قارئین تک پہنچانے کا بندوبست کریں، ان کا یہ کام قوم کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرے گا۔