مرشد اقبال نے خداداد بصیرت کی آنکھ سے برسوں پہلے بھارت کی تباہی کے مناظر کا مشاہدہ کرلیا تھا اور بہت پہلے خبردار کر دیا تھا کہ اگر بچ سکو تو بچ جائو۔
وطن کی فکر کرنا ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں
کس کے حاشیہ تصور میںتھا سوا ارب آبادی کے ساتھ مضبوط معیشت رکھنے والا بھارت، مودی نے جس کیلئے بڑ ہانکی تھی کہ 2025ء میں بھارت 25کھرب بلین ڈالر کی معیشت والا ملک ہوگا، اقتصادی بدحالی کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو اس حالت تک پہنچانے کا ذمہ دار بھی یہ مودی ہی ہے۔ دوسری دلچسپ حقیقت جو حیران کن ہوچکی ہے یہ کہ جن ایام میں مرشد اقبال ہندوستانیوں کو خبردار کر رہے تھے، ان ہی دنوں یعنی 1925ء میں ہندو توا کے جنونی فلسفے کے ساتھ راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے جنم لیا۔ ایک عرصہ بعد اسکی کوکھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی صورت میں سیاسی شعبہ نے جنم لیا، جس نے نریندر مودی جیسے بھیڑیا صفت انسان کو وزیراعظم بنا کر ہندوتوا کو عملی شکل دینے کی راہ تلاش کی ۔
نیشنل اسٹیٹیکل آفس کے یکم فروری 2020ء میں جاری کردہ ابتدائی اعدادوشمار کے مطابق مارچ میں ختم ہونے والے معاشی سال میں مجموعی پیداوار 5فیصد کم ہوئی جو پچھلے 11 سال میں سب سے کم ہے۔ معروف بھارتی تھنک ٹینک نیشنل انسٹیٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے وائس چیئرمین راجیو کمار کے مطابق ملک میںموجودہ اقتصادی سست روی کی گزشتہ 70 سال میں مثال نہیں ملتی۔ امریکہ کے آزاد مالیاتی ادارے جنفریز کے ایکوئٹی سٹریچر شعبہ کے گلوبل ہیڈ اور تجزیہ کار کارکس وڈو نے اپنے نیوزلیٹر گریڈ اینڈ فیئر میں بھارت کے ایسٹ ایلوکیشن فولیو میں ایک فیصد کمی کر دی ہے جو 16فیصد سے 15فیصد پر آگئی ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے قبضہ والے کشمیر کی سنگین صورتحال نے بھی بھارتی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ ادھر آئی ایم ایف کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ قومی بجٹ میں ٹیکسوں اور جی ایس ٹی کے حوالے سے اہداف تاحال پورے کیوں نہیں ہوئے۔ ملک کی خراب اقتصادی صورتحال کا اندازہ قومی فضائی کمپنی ایئر انڈیا کی جانب سے 7ماہ سے فیول کی مد میں واجبات ادا نہ کرنے سے لگایا جاسکتا ہے، کمپنی پر واجب الادا رقم ساڑھے 4ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے جس کے نتیجے میں پٹرولیم کمپنیوں نے ملک کے 6ایئرپورٹس پر فیول کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا ہے جہاںتک ایئر انڈیا کے مجموعی قرضہ کا تعلق ہے وہ 58ہزار کروڑ روپے ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر گھورام راجن کے مطابق ملکی معیشت میں سست روی انتہائی تشویشناک ہے۔ سوسائٹی آف انڈیا آٹو موبائل کے مطابق آٹو موبائل انڈسٹری میں 10لاکھ ملازمتوں کے خاتمہ کا خطرہ یقینی ہوچکا ہے۔ دریں اثناء فیڈریشن آف آٹو موبائل ڈیلرز کے مطابق صرف 3ماہ مئی، جون اور جولائی 2019ء میں 2 لاکھ ملازم فارغ کئے گئے۔ گزشتہ 18ماہ کے دوران 271شہروں میں 286 شورومز بند کر دیئے گئے، کاروں کی فروخت 31فیصد کم رہی جو گزشتہ 19سال میں سب سے کم ہے۔
ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن آف انڈیا کیمطابق اقتصادی سست روی کے باعث 50 لاکھ ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں اور مزید ملازمتیں ختم ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اسی طرح 90 سال پرانی بسکٹ کمپنی ’’پارلے‘‘ کی انتظامیہ نے دس ہزار سے زائد ملازم فارغ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
کرونا وائرس کے باعث وہ ملازمتوں کے مواقع کم ہونے پر خلیجی ممالک سے لاکھوں بھارتی باشندوں کی وطن واپسی ہے۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ صوبوں کے 7 لاکھ 50 ہزار بھارتی لاک ڈائون ختم ہوتے اور فضائی شروع ہوتے ہی واپس سفر کا آغاز کریں۔ جنہیں روزانہ دو ہزار کی تعداد میں لایا جائے گا۔ یہ سلسلہ تین ماہ جاری رہ سکتا ہے۔ یو اے ای میں بیروزگار ہونے والے ڈیڑھ لاکھ بھارتی باشندوں نے واپسی کیلئے اپنے سفارتخانے سے آن لائن رابطہ کیا ہے۔ آئی ایس ایچ مارکیٹ دنیا کی معیشت کے اعدادوشمار گزشتہ 25 سال سے جمع کر رہا ہے۔ آئی ایس ایچ مارکیٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ اپریل 2020ء میں بھارت کا مینوفیکچرنگ شعبہ بری طرح زوال کا شکار ہوا۔
پچھلے پندرہ سال میں ملازمین کی چھانٹی سب سے زیادہ عمل میں آئی۔ یاد رہے 2009ء میں عالمی بحران کے وقت بھارت کا مینوفیکچرنگ پی ایم آئی کے قریب 40 تک ہی گرا تھا۔ اقتصادی سست روی سے عام کاروباری افراد کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے جس کی ایک مثال حیدرآباد کے ایک جوہری سونی چند کی ہے۔ جو گزشتہ 25 سال سے ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات فروخت کر رہا تھا۔ اب عوام کی معاشی قوت یہ سب خریدنے کی نہیں رہی اور اس کے نتیجے میں سونی چند جوہری سے سبزی فروش بن گیا ہے۔ ہیرے جوہرات اور سونے کے زیورات کی جگہ اب اس کی دکان میں مختلف سبزیاں سجی نظر آتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر اسلام اور مسلمان مخالف پوسٹیں کرنے پر متحدہ عرب امارات سے مزید تین بھارتی شہریوں کو ملازمتوں سے برطرف کرکے ملک بدری کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ان میں شیف روات‘ میمن گنگوی اور رویت شامل ہیں۔ کچھ دنوں قبل اسی جرم میں ڈاکٹروں سمیت 6 بھارتی شہریوں کو ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا تھا جس پر خلیجی ریاستوں میں شاہی خاندانوں میں جنم لینے والے ردعمل سے مودی سرکار کے اوسان خطا ہو گئے۔ مشرق وسطیٰ میں 35 لاکھ بھارتی سالانہ 20 ارب ڈالر بھارت بھیجتے ہیں۔ اس پر مودی‘ بی جے پی کے دوسرے لیڈروں اور یو ای اے میں بھارتی سفیر نے خلیجی حکومتوں کی شان میں چکنی چپڑی باتیں شروع کر دی ہیں‘ لیکن ساتھ ہی ایک خوفناک سازش منظرعام پر آئی ہے کہ آر ایس ایس خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے ان ممالک میں بغاوت کروا سکتی ہے۔ اس مقصد کیلئے خلیجی ممالک میں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کو شاہی خاندانوں میں پھوٹ ڈلوانے کا کام سونپا گیا ہے تاکہ وہاں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق حکومتیں قائم کی جا سکیں۔ اب خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں کیلئے ایسے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کا سراغ لگانا اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے جو آر ایس ایس کے وفادار ہیں۔ اس وقت متحدہ عرب امارات میں 4 لاکھ 5 ہزار 3 سو 98کو ‘قطر میں 3 لاکھ 51 ہزار 2 سو 10‘ کویت میں 3 لاکھ 50 ہزار‘ بحرین میں 1 لاکھ 50 ہزار‘ عمان میں 2 لاکھ 59 ہزار 7 سو 80‘ یمن میں 1 لاکھ 50 ہزار اور سعودی عرب میں 40 ہزار بھارتی ملازمتیں کر رہے ہیں۔