زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ عام آدمی زندہ رہے یا مر جائے‘ اس سے معاشرے میں زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس نہیں ہوتا ہے جس پر منیر نیازی کو کہنا پڑا…؎
زندہ رہیں تو کیا مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
جب کوئی نامور اور کامیاب شخص موت کی طرف گامزن ہوتا ہے اور اسے واضح طورپر محسوس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی خطرناک بیماری کے ہاتھوں جلد زندگی جیسی نعمت سے محروم ہو جائے گا تو موت کو گلے لگانے سے پہلے وہ زندگی اور اسکی حقیقت پر غور کرتا ہے۔ اپنی گزری ہوئی زندگی کی کامیابیوں اور محرومیوں یا زندگی میں باہم عروج پر پہنچنے کیلئے کن کن احساسات و جذبات کو قربان کرتا ہے۔ وہ سب کچھ سلگتی یادیں اور بعض اوقات حسرت یا پچھتاوے ایسے خیالات اور سوچ و فکر کو جنم دیتے ہیں جو دوسرے انسانوں کیلئے زندگی کی ترجیحات مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جان کیٹس صرف 27 سال کی عمر میں تپ دق کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا۔ مگر زندگی کے مختصر ترین عرصے میں اس نے بھرپور رومانوی شاعری کی اور آج تک لوگوں کے ذہنوں میں اس کا تصور قائم ہے۔ اس کا کہنا تھا ’’زندگی میں صرف ایک چیز کا یقین برقرار رہتا ہے اور وہ ہے احساس اور جذبے کی سچائی‘‘ کیونکہ یہ دونوں چیزیں بالآخر دنیا میں حقیقی حسن پالتی ہیں اور حسین چیز وہی ہوتی ہے جو سب کیلئے لطف و انبساط پیدا کرتی ہے۔
"A Thing of Beauty is Joy Forever"
’’نہ یہی ہے سٹاپ تو بس یہیں اترو‘‘ اس اچانک پن میں پھنس کر مجھے سمجھ آگئی ہے کہ ہم سب کسی طرح سمندر کی بے رحم لہروں کے اوپر تیرتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح بے یقینی کی ہر بڑی لہر کے آگے ہم سب اپنے چھوٹے سے وجود کو سنبھالنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ اس مصیبت میں پھنسنے کے بعد بس ہسپتال پہنچا۔ دردکی شدت بے کراں تھی۔ کوئی ہمدردی‘ پیار بھرے بول کوئی ہمت بندھانے والی بات کچھ بھی نہیں۔ اس وقت انسان کو پتہ چلتا ہے جسے پوری کائنات کا صرف ایک ہی روپ ہے۔ وہ ہے درد کی شدت۔ میرے سامنے لارڈ کا کرکٹ گرائونڈ تھا۔ میرے ساتھ بہت سارے ایسے بھی مریض تھے جو زندگی اور موت کے درمیان یعنی (کوما) میں لٹکے ہوئے تھے۔ ایک طرف سٹیڈیم اور ایک طرف ہسپتال۔ درمیان میں ایک سڑک۔ کرکٹ کو گیم آف لائف بھی کہتے ہیں۔ جس طرح بیٹسمین‘ تماشائیوں اور کھلاڑیوں کو نہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگلی گیند پر کیا ہوگا۔ اسی طرح ہسپتال میں گیم آف ڈیتھ جاری رہتی ہے اور نہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگلی سانس آئیگی یا نہیں۔ یہ ہسپتال کرکٹ گرائونڈ سے کیوں جڑا ہوا ہے تو اچانک مجھے سمجھ آگئی کہ بس جو چیز یقینی ہے وہ بے یقینی ہے۔ جو چیز بااعتبار ہے اس میں بے اعتباری بھی ہے۔ مجھے اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ میری زندگی کا جو بھی نتیجہ نکلے‘ مجھے اس کو جاننا پڑے گا چاہے میرے پاس کتنا ہی عرصہ زندگی کا ہے اور سب کچھ ایک طوفانی لہر میں ہے جو مجھے جب چاہے بہاکر لے جائے۔لوگ میرے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ ان سب کی دعائیں مل کرایک ہو گئی ہیں۔ ایک بڑی سی طاقت جو میری ریڑھ کی ہڈی کے اندر اتر گئی ہیں‘ میں جو لکڑی کا ایک ننھا سا ٹکڑا ہوں‘ اسے کیا ضرورت ہے کہ پانی کے بہائو کا رخ بدلنے کی کوشش کرے۔ اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہم سب قدرت کی گود میں بیٹھے ہیں جو ہمیں ہلکے پھلکے جھولے دے رہی ہے۔ نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم ’’میں تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ آپ دنیا کے قریب ہوتے ہیں مگر ہماری تقدیر کے متعلق رب کریم ہی جانتا ہے۔‘‘
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے‘ مجھے جانتا کوئی اور ہے
آئی فون کے موجد میئوجابز سے کون واقف نہیں ہوگا۔ وہ 7ارب ڈالرز کی دولت کا مالک تھا۔ وہ 56 سال کی عمر میں نیورو ڈاکٹرائن کینسر کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے دنیا والوں کو اپنے ایک نشریاتی پیغام کے ذریعے زندگی کے متعلق کچھ یوں کہا کہ میں نے کاروبار کے میدان میں کامیابی حاصل کی، بلندیوںکو چھوا، اوروں کی نظر کامیابی کی ایک مثال ہے مگر کام کے علاوہ مجھے راحت کم ملی۔ اس وقت ہسپتال پر لیٹا ہوا ہوں، جب میں اپنے کل کو یاد کرتا ہوں تو اب موت کی دہلیز پر کھڑے ہو کر مجھے اپنی تمام کامیابیاں بے معنی لگتی ہیں۔رات کی تاریکی میں اپنے اردگرد ہسپتال کی مشینوں کو دیکھتا ہوں جن کی سبز بتیاں اور آوازیں مجھے احساس دلاتی ہیںکہ اب میرے پاس گنتی کی چند سانسیں رہ گئی ہیں۔ مجھے اب احساس ہوا ہے کہ جب آپ اپنی زندگی میں خاطرخواہ کما لیں تو آپ کو وہ کام کرنے چاہئیں جن کا تعلق کمانے سے نہ ہو۔مثال کے طور پر محبت کی کہانیاں، فنون لطیفہ، بچپن کے خواب مگر دولت نہیں، دولت انسان کو دوہرے پن کا شکار کر دیتی ہے جس طرح اس نے مجھے کیا تھا۔ اللہ نے ہمیں حواس دیئے ہیں تاکہ ہم دوسروں کے دلوںمیں محبت تلاش کرسکیں نہ کہ اپنے آپ کو دولت اور شہرت کے سحر میں جکڑ دیں جس طرح میںنے کیا تھا اور میں اپنے آپ کو اس سحر سے نہ نکال سکا۔ میں اس دولت اور شہرت کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا ہوں، لے جا سکتا ہوں تو صرف وہ یادیں جو محبت کے رشتوں کی وجہ سے بنی ہیں۔ یہی حقیقی دولت جو آپ کے ساتھ چلتی ہے جو آپ کو مضبوطی دیتی ہے اور راستہ دکھاتی ہے، محبت ہزاروں میل چل سکتی ہے۔ (جاری)
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیاں ہے زندگی
May 07, 2020