’’یاد ہائےؔ مرزا شجاع اُلدّین ؔبیگ امرتسرؔی !‘‘ 

معزز قارئین ! گذشتہ روز 23 رمضان اُلمبارک ، 6 مئی کو پاکستان اور بیرون پاکستان تحریک پاکستان کے نامور کارکن مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کی 19 ویں برسی اُن کے اہلِ خاندان اور دوستوں نے عقیدت و احترام سے منائی ۔
 9 جولائی کو مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی برسی اور 31 جولائی کو ،آپؒ کی سالگرہ پر مَیں اپنے کالم میں اپنے دو دوستوں ، تحریک پاکستان کے دوکارکنوں ، لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ( موجودہ چیئرمین "P.E.M.R.A" پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد صاحب ) اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم طورؔ (اُردو ، پنجابی کے نامور شاعر ، روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسیؔ کے والد صاحب ) کا تذکرہ ضرور کرتا ہُوں۔ 
تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا ۔ تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن میاں محمد اکرم طور ؔ نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا ۔ 
2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں جنہیں ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی نے ’’مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔ انتخابی مہم کے آخری دِنوں میں مادرِ ملّت ، ’’پاکستان مسلم لیگ کونسل ‘‘ کے ایک لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر ’’ المنظر‘‘ میں قیام پذیر تھیں جب ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت ؒ کی انتخابی مہم کے انچارج تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ ) کارکن ، قاضی مُرید احمد (مرحوم) مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کو مادرِ ملّتؒ سے ملاقات کے لئے لاہور لائے ۔
 اُسی ملاقات میں مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور میاں محمد اکرم طورؔ بھی شریک تھے، پھر میری اُن دونوں سے باقاعدہ دوستی ہوگئی لیکن اِس وقت مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ہی میرا موضوع ہیں ۔
’’ امرتسر میں سِول نا فرمانی ! ‘‘ 
انگریزی دَور میں جب امرتسر میں بھی تحریک سِول نافرمانی شروع ہُوئی تو مرزا شجاع اُلدّین بیگ بھی اُس میں سرگرم تھے ۔ کئی بار پولیس اُنہیں بھی دوسرے مسلم لیگی کارکنوں کے ساتھ گرفتار کر کے لے جاتی اور 10۔15 میل دُور چھوڑ جاتی تھی ۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں کبھی کبھی مرزا شجاع اُلدّین بیگ پنجابی میں بھی مختصر تقریر کرتے اور پنجاب کے صوفی شاعروں کا کلام ترنم سے سُنا کر ’’ تحریک پاکستان ‘‘ کے کارکنوں کا لہو گرماتے رہے۔ 
مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ 1950ء میں لاہور کے ایک بزنس مین مرزا شہاب اُلدّین بیگ کی صاحبزادی اصغری بیگم سے میری شادی ہُوئی اور میری اہلیہ کے بزرگوں نے بھی تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کِیا ہے۔ 
معزز قارئین ! پھر مَیں نے دیکھا کہ ’’ مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی اہلیہ محترمہ اصغری بیگم غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی تعلیم تربیت اور اُن کی شادیوںکا بندوبست کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں ‘‘ ۔ اُنہوں نے مادرِ ملّت کی انتخابی مہم میں بھی اہم کردار ادا کِیا ! ‘‘۔ 
’’ میرے دو ملّی ترانے ! ‘‘ 
 ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملّی ترانے لکھے ایک ترانہ ہر روز ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا جس کا عنوان ، مطلع اور ایک بند یوں تھا…؎
’’اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!‘‘
…O…
’’ زُہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
دُنیا میں بے مثال ہیں ، اربابِ فن ترے !
ہر بار فتح یاب ہُوئے ، صف شکن ترے !
شاہ راہِ حق کے شاہ سواروں کی خیر ہو !
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
مجھے بہت خُوشی ہُوئی کہ ’’ جب مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اپنے دو لہوری دوستوں کے ساتھ مجھے مبارک باد دینے کے لئے ، سرگودھا پہنچ گئے ؟‘‘۔ 1970ء کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کِیا تو مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کہا کرتے تھے کہ ’’ بابا بُلّھے شاہ قصوری القادریؒ نے تو، بہت ہی پہلے اللہ کے ہر بندے کو تلقین کردِی تھی کہ …
منگ اوئے بندیا، اللہ کولوں،
گُلّی ‘ جُلّی ، کُلّی!
…O…
یعنی ’’ اے بندے !۔ تو اللہ سے روٹی ، کپڑا اور مکان مانگ ‘‘۔
بیگ صاحب اکثر ’’ باب اُلعِلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا یہ قول دہرایا کرتے تھے کہ ’’ ہر اِنسان کے لئے ، روزانہ ایک وقت کا کھانا ، سادہ کپڑے اور سر چھپانے کے لئے ایک چھوٹا سا گھروندا کافی ہوتا ہے! ‘‘۔ 
’’محترمہ اصغری بیگم کا انتقال! ‘‘ 
معزز قارئین! مرزا شجاع الدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ 28 مئی 2020ء کوپروفیسر محمد سلیم بیگ اور اپنے چاروں "Businessmen" بیٹوں مرزا ظفر بیگ ، مرزا مظہر بیگ ، مرزا حامد بیگ اور مرزا خالد بیگ اور بیٹی فرح کوکب صاحبہ کی شناخت اور علامت بن کر عالم جاودانی جا پہنچیں‘‘۔
 مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کے انتقال کے بعد اُن کے پانچوں بیٹے،غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کی شادیوں کا بندوبست کرتے رہے ہیں ۔ 
’’ماں جیسی ! ‘‘ 
2 جولائی 2020ء کومرحومہ اصغری بیگم کے ’’ فاتحہ چہلم‘‘ کی تقریب میں پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ نے مجھے بتایا کہ ’’میری والدۂ صاحبہ کی وفات کے بعد بہت سی خواتین میری ،میرے بھائیوں کی بیویوں ، میری بہن اور اُس کی سسرالی خواتین کو بتاتی رہی ہیں کہ ’’ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ محترمہ ، اصغری بیگم ہمارے لئے ’’ ماں سی ‘‘ (ماں جیسی ) تھیں ‘‘ ۔ 
معزز قارئین ! مَیں گذشتہ 23 سال سے مرزا محمد سلیم بیگ کی اہلیہ ( راجپوت برادری کی بیٹی ، میری بھی بیٹی ) بیگم طاہرہ سلیم بیگ کو دیکھ رہا ہُوں ، وہ اپنے تینوں بیٹوں ، موسیٰ سلیم بیگ ، سلیمان سلیم بیگ، خضر سلیم بیگ اور بیٹی عنایہ سلیم بیگ کی حقیقی ماں کے فرائض بڑی خوبی سے انجام دے رہی ہیں لیکن اپنی مرحومہ ساس ( اصغری بیگم صاحبہ ) کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی ، تعلیم و تربیت اور شادیوں کا بندوبست کر کے ثوابِ دارین بھی حاصل کر رہی ہیں ۔ مَیں اب بھی یہی سوچ رہا ہُوں کہ ’’جنت مکانی ‘‘ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور اُن کی اہلیہ اصغری بیگم کی رُوحوں کو کتنا سکون مل رہا ہوگا ؟ ‘‘ ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن