کارل مارکس نے کیاکمال کی بات کی ہے کہ بے شعو ر قوم دراصل دشمن کی فوج ہوتی ہے ،اگر ہم کارل مارکس کے اس قول کا عمیق مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ دراصل بے شعور لوگ اپنے صحیح کام کو غلط طریقے سے اوراپنے اچھے کام کوبھونڈے انداز میں کرکے نہ صرف اپنا مؤقف برباد کر لیتے ہیں بلکہ دشمن کے ناپاک عزائم کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔تو گو یاانہوں نے دشمن کی فوج کا کام سر انجام دیا۔ رحمت للعالمینؐسے اپنی عقیدت وعشق کاجو پیغام ہم دنیا کو دینا چاہتے ہیںکیا وہ بجا طور پر دے پائے ہیں؟ تویقینا نہیں۔کیونکہ دنیا میں اپنی بات منوانے کے کچھ سلیقے ہیںاور دو ہی طریقے ہیں۔ایک استدلال کا اور دوسرا طاقت کا ۔اور بدقسمتی سے ہم ان دونوں ہتھیاروں سے ہی محروم ہیں ۔کیونکہ موجودہ صورت حال میں طاقت استعمال کرنے کی ہم طاقت رکھتے ہیں نہ اسکی نوبت دکھائی دیتی ہے۔ ،رہی بات استدلال کی تو بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں استدلال کی جگہ تشدد نے لے لی ہے ،جس کا ہم اب تک ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں اور پھر بھی اس روش کو ترک کرنے کو تیار نہیں ۔استدلال والے علماء اور دانشوروں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور دین کے جید علماء کو ہم پس پشت ڈال چکے ہیں ۔ہم میں جس نے کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی وہ سب سے بڑا دانشور اور جس نے محض مدرسے میں ناظرہ قرآن پڑھ لیا وہ سب سے بڑا عا لم ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اچھے انسان بن سکے نہ اچھے مسلمان ۔ہم مختلف جتھوں اور گروہوں میں بٹا ہوا ایک ہجوم ہیں ، جس کی کوئی سمت ہے نہ منزل ۔ہر کوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہا ہے ۔اگر باریک بینی سے تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان پرتشدد معرکوں سے پاکستان کو شاید فائدہ تو رتی بھر بھی نہ ہواہو البتہ نقصان بہت ہوا،اور دشمنان اسلام و پاکستان اس سے جس قدر مستفید ہوے ہیںاس کا اندازہ شاید ہمارے پاکستانی جذباتی مسلمان نہ لگا سکیں۔ ۔کیونکہ جو کا م وہ ہمارے ملک میں گھس کر کرنے کی جرات نہیں کرسکتے تھے انھوں بڑے فول پروف طریقے سے باہر بیٹھ کے کرلیا۔ ہمیں اس بات پر انتہائی ٹھنڈے دل اور روشن دما غ سے غورو خوض کی ضرورت ہے کہ آئے دن کبھی لندن میںسلمان رشدی لعین کی کتاب The satanic verses،کبھی سویڈن میں گستاخانہ خاکے اور کبھی فرانس میں سکول ٹیچر Samuel Patyملعون کے کارٹون۔آخر ایسا کر کے ان کو ملتا کیاہے اور وہ کونسے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں ؟
یہ انتہائی قابل فکر بات ہے ۔الحمدللہ اس ملک کی اکثریت نہ صرف مسلمان ہے بلکہ حضرت محمد مصطفےﷺکے ساتھ بے پناہ محبت وعقیدت کے جذبے سے سر شار ہے ۔مجھ جیسے خطاکار انسان کوشاعر نہ ہوتے ہوے بھی رسول پاک ﷺؐ کی شان اقدس میں نہ صرف نعت لکھنے کا بلکہ میلاد وں میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے اور جید علماء کرام سے مستفید ہو نے کاشرف بھی حاصل ہے۔اور کئی سال مسلسل اپنے آبائی شہر عارفوالا میں عید میلادالنبیؐ کے جلسے کروانے کی سعا دت بھی حاصل ہے جس میں ہر طبقہء فکر کے نامور علماء کرام اور نعت خواں،حبیب خدا،محمد مصطفےؐ کی سیرت طیبہ سے سامعین کے ذہنوں کو معطر کرتے رہے ۔اور اس سے بھی کہیں بڑھ کہ مجھے جو سعادت حاصل ہو چکی ہے وہ شاید دنیا کے چند خوش نصیبوں کو ملی ہو۔مگر اس وقت اس کے تذکرے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمیںسوچنا ہوگاکہ ہمیںبحیثیت غلام رسولؐاپنے نبی پاکؐ کی ناموس کو کس طرح سے محفوظ بناناہے اور انکی تعلیمات کو کس انداز میں دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ہے۔کیونکہ نبی کریمؐ کی ذات کوئی عام انسان نہیں حضوراکرم ﷺتو اللہ کے وہ پیارے پیغمبر ہیں جن کا خدا نے سایہ ہی نہیں بنایاتو کوئی بد قماش و بد نسل لکیریں کھینچ کر ان کی توہین کیا کرے گا۔بہرحال ہمیں اس کے بارے میںبہت ہی باشعور اور محتاط رویہ اپنانا ہو گا کہ کہیں ہمارا کوئی عمل ہمارے پیارے نبیؐکی شان خدانخواستہ گھٹانے کا سبب تو نہیں بن رہا؟یا دنیا میںہمارے لئے جگ ہنسائی اورہمارے دشمن کے ناپاک عزائم پورے کرنے کا سبب تو نہیں بن رہا؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کہیں نادانی میں ہم رسول پاکؐ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے آپؐ کی ناراضگی تو نہیں لے رہے۔کیونکہ آپؐکا فرمان تو یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ کیونکہ اپنے نبی پاکؐ کے فرامین کے بالکل الٹ عمل کرنا سب سے بڑی گستاخی ہے، اور اگلی بات یہ کہ ہمیں بہت سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ آئے دن پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستا خیوں کا اصل شاخسانہ کیا ہے۔اگر گہرائی سے غور وفکر کیا جائے توا ن گستاخیوں کے پیچھے اسلاموفوبیا کے ساتھ ساتھ ایک گہری سازش بھی دکھائی دے گی۔وہ یہ کہ مسلمانوں کی دل آزاری کر کے انہیں ذہنی طور پر الجھایا جائے اور ان کے جذبات کو بھڑکا کے ان کے اندار انتشار پیدا کیا جائے ،اور اس منصوبے میں ان سازشیوں کا سب بڑا نشانہ پا کستان ہے ۔کیونکہ پاکستان دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہو نے کی وجہ سے ان کی آنکھ میں بری طرح کھٹکتا ہے ،اور ہماری شومئی قسمت ،پاکستان کے اندر فسادو انتشار پیدا کرنے کیلئے سارا سامان میسر ہے ،ا س کے لیے انہیں کسی لمبی چوڑی پلاننگ کی یا وسائل ضائع کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی،اوراب تک اپنے ان مقاصد میں وہ یقینا کامیاب دکھائی دیتے ہیں اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی املاک کوکروڑوں کا نقصان پہنچاتے ہیں،اپنی ہی مارکیٹیں اور بازار بند کراکے مزدوروں کی روزی چھینتے ہیں۔