امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں بدامنی 

امن مذاکرات کے باوجود اس وقت افغان حکومت اور طالبان دونوں انتہائی متضاد سمت میں تو نہیں کھڑے مگر ایک دوسرے کے خلاف ضرور ہیں۔ افغان حکومت کی کوشش ہے کہ امریکی فوجی انخلا کے دوران وہ طالبان کا ڈرائو دے کر ملک میں بدامنی کو شہ دے کر دنیا کو یہ باور کرائے کہ اتحادی افواج کے جانے کے بعد کیا ہو گا۔ اس لیے امریکہ فوجی لحاظ سے افغان حکومت کو مضبوط کرے۔ افغان سرکاری فوج کو اسلحہ اور جدید ساز و سامان دے تاکہ وہ امریکی فوجی انخلا کے بعد پوری طاقت کے ساتھ طالبان کے مدمقابل کھڑی رہے۔ طالبان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد امریکی فوجی انخلا عمل میں لایا جائے اور انہیں اس افراتفری میں امریکی اسلحہ و ساز و سامان سے جو کچھ ہاتھ لگتا ہے وہ چھیننے کا موقع ملے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ صرف افغان حکومت اور طالبان ہی افغانستان کے سیاسی مطلع پر موجود نہیں۔ وہاں درجنوں وار لارڈز اب بھی میدان میں موجود ہیں۔ سیاسی اور مسلکی بنیاد پر افغانستان آج بھی انہی مسلح جتھوں کے نرغے میں ہے جو روس کے خلاف جنگ یا جہاد میں ترتیب پائے اور انہوں نے امریکہ ، ایران ، سعودی عرب ہی نہیں دنیا بھر سے خوب ڈالر بھی حاصل کئے اور اسلحہ و دیگر سازو و سامان بھی خریدا ۔ ان میں سے اکثر کو پاکستان اور ایران میں پناہ بھی ملی۔ 
ان کی چالاکی دیکھیں انہوں نے اس میں سے اگر 40 فیصد اسلحہ روس سے جنگ میں استعمال کیا تو 60 فیصد اپنے مخالفین کو گرانے کے لیے سنبھال کر بھی رکھا۔ امریکہ کے خلاف طویل جنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان مجاہدین کی تنظیمیں اسی بچے کھچے اسلحہ سے برسرپیکار ہیں۔ احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم اور دیگر ایرانی نواز حلقوں میں اس وقت جو خاموشی ہے کیا وہ معنیٰ خیز نہیں۔ کیا انہیں ایران ، امریکی فوجی انخلا کے بعد بے یارو مددگار چھوڑ دے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ وار لارڈز افغانستان کے مختلف علاقوں میںمضبوط اڈے بنا کر بیٹھے ہیں۔ جیسے ہی تخت کابل کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہاں کون کامیاب ہوتا ہے۔ یہ بھی اپنا حصہ لینے کے لیے میدان میں آئیں گے۔ اس وقت تخت کابل پر افغان حکومت اور طالبان میںمیچ ہو رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی طاقت توڑنے میں مصروف ہیں اور باہمی مذاکرات میں شریک ہیں اسی لیے افغان امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں فوج اور طالبان ایک دوسرے پر بھرپور حملے بھی کر رہے ہیں۔ اس بدامنی سے امریکہ بھی پریشان ہے اسے خطرہ ہے کہ اس کے انخلا کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ اگر اتنی طویل جنگ اور نقصانات کے بعد افغانستان کو ایسا چھوڑا جائے کہ وہاں خانہ جنگی ہو اور شدت پسندوں کو تقویت ملے تو کیا فائدہ، چنانچہ امریکہ کی کوشش ہے کہ افغانستان سے انخلاء سے قبل پاکستان ، سعودی عرب کی مدد سے طالبان اور افغان حکومت میں کوئی ایسی راہ نکالی جائے کہ دونوں قیام امن پر متفقہ ہوں۔اس سے امریکہ کا پرامن فوجی انخلا ممکن ہو گا ورنہ افغان وار لارڈز خواہ حکومت کے حامی ہوں یا طالبان کے وہ انخلا کے موقع پر امریکی سازو سامان اور اسلحہ حاصل کرنے کے لیے فوجی قافلوں اور اڈوں پر حملے کر سکتے ہیں جس سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ یہ جنگجو گروپ فطرتاً لوٹ مار کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب امریکہ پاکستان اور سعودی عرب سے اپنے پرامن انخلا پر بات کر رہا ہے۔ اس میں زبردستی بھارت کو بھی شامل کرنے پر بضد ہے تو اس کی کوئی وجہ سامنے نہیں آتی۔ بھارت کا براہ راست افغان مسئلے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ صرف افغان حکومت اپنے بھارت نواز پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کو بھی زبردستی ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ تاکہ پاکستان کو زچ کیا جائے اور اس کا اثر کم ہو۔ مگر کیا امریکہ اور افغان حکومت بھول رہے ہیں کہ اگر ایسا کرنا ہے تو پھرایران کو بھی امن مذاکرات اور فوجی انخلا کے معاملے پر اعتماد میں لینا ہو گا ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ ورنہ اس کے حامی دھڑے بعد میں اگر اعتراض کر بیٹھے تو سارے کئے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے۔ مگر ہم سب ریت میں سر چھپائے شتر مرغ کی طرح اس متوقع طوفان سے بے خبر بیٹھے ہیں۔ فوجی انخلا کے بعد پرامن افغانستان صرف افغان حکومت اور طالبان کے لیے ضروری نہیں پاکستان کیلئے بھی ضروری ہے۔ 45 برس سے ہم افغان جنگ کی سزا بھگت رہے ہیں جن کی مدد کی وہ بھی ہم سے ناراض جن کے خلاف لڑے وہ بھی ہم سے ناراض۔ 
اس لیے ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ افغانستان میں امریکہ کے جانے کے بعد افغان حکومت ، طالبان اور وار لارڈز امن و امان کی ذمہ داری قبول کریں اور حالات کنٹرول کریں۔ ورنہ جو خانہ جنگی ہو گی اس کا تصور ہی ہولناک ہے۔ اس وقت پاکستان افغان سرحد پر خاردار باڑ لگا کر اسے محفوظ بنا رہا ہے۔ افغان شرپسند بار بار اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہمارے فوجیوں کو شہید کر رہے ہیں، زخمی کر رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں ہماری سرحدوں پر کیا ہو سکتا ہے۔ اب ہم مزید لاکھوں افغان مہاجرین کا مزید بوجھ نہیںاٹھا سکتے۔ اپنے ملک کو دہشت گردوں کا نشانہ بننے نہیں دے سکتے۔ بڑی مشکل سے ہماری مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دے کر ملک کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنایا ہے اس لیے امریکی فوجی انخلا کے دوران بدامنی اور امریکی فوجی انخلا کے بعد خانہ جنگی سے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے تمام تر حفاظتی اقدامات ہمیں پہلے ہی مکمل کرنا چاہئیں۔ 

ای پیپر دی نیشن