کراچی (این این آئی) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کی تباہ حال معیشت کو پٹری پر چڑھانے کے لئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ موجودہ وسیع البنیاد حکومت ستر فیصد ملک کی نمائندگی کر رہی ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو معاشی بہتری کے ایجنڈے پر متفق کرنا ، نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی بندش یا فروخت ضروری ہے۔ توانائی کا شعبہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا نظام خامیوں کا مجموعہ ، معیشت کا دم گھٹا ہوا ہے۔ ٹیکس گزار کو سزا اور ٹیکس چور کو ایمنسٹی کی پالیسی غلط ہے، میاں زاہد حسین نے کہا کہ ٹیکس کا نظام غیر متوازن ہے۔ صنعتی شعبہ پر ٹیکس کا بوجھ بہت زیادہ ہے جبکہ زرعی شعبہ جو صنعتی شعبہ کے تقریباًبرابر ہے ،اُسے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ ملک کے ایک فیصد جاگیردار بائیس فیصد زمین پر قابض ہیں، جس سے انھیں کم از کم آٹھ سو ارب روپے کی آمدن ہوتی ہے، مگر ان سے صرف دو ارب روپے ٹیکس لیا جاتا ہے جو ملکی سا لمیت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ زرعی اشیاء کی قیمت میں زبردست اضافہ سے بڑے زمینداروں کی آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے مگر کاشتکار اب بھی بدحال ہے جسے خوشحال بنائے بغیر یہ شعبہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں نے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے میں بھرپور دلچسپی نہ لی تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔ زراعت سے وابستہ تمام شعبوں کو نظر انداز کرنے سے آٹھ ماہ کا فوڈ امپورٹ بل 6.4 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔