عمران خان کی حکومت جانے کے بعد لگ رہا ہے کہ آئندہ پاکستان میں حکومت غلامان ِ امریکہ رہے گی اور ان کے مہرے ہمیشہ کے لیے شریف، زرداری اورچوہدری خاندان کی طرح آدھی پارٹی خاندان غلاماں ہو گی اور نصف اپوزیشن کرے گی تاہم خاندان کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہی ہونگے ۔چوہدری سالک حسین اور چوہدری مونس الہی الگ الگ اتحادوں میں رہ کر اپنی پارٹی کا دفاع کریں گے۔ شہباز شریف کے وزیراعظم بن جانے کے بعد اگلہ مقابلہ مریم نواز، چوہدری مونس الہی اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے ۔اور ان میں امیدوار برائے وزارت عظمیٰ کے طور پر رن پڑنے کو جا رہا ہے جبکہ عمران خان بھولے بادشاہ ساڑھے تین سال وزیر اعظم رہنے کے بعد جو کام رہ گئے تھے وہ کنٹینر پر چڑھ کرکرنے جارہے ہیں اور حکومت کی طرف سے نئے نئے مقدمات کا سامنا کر ہے ہیں اورڈیڑھ سو کے لگ بھگ پارٹی رہنماؤں کی ضمانت قبل از گرفتاری کروا رہے ہیں جبکہ شیخ رشید کے بھتیجے کو تو اٹک جیل میں سلاخوں کے پیچھے بند کر کے عمران خان کو دعوت دی ہے کہ وہ حکومت کے لیے اور خطرناک بن جائے اور اسلام آباد میں 20 لاکھ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جمع کر کے شہباز حکومت کاخاتمہ کرے جبکہ عمران خان کو جن قوتوں میر جعفر اور میر صادقوں نے ابھی تازہ تازہ یک جان ھو کر گھر بھیجا ہے وہ دوبارہ ان کی خواہش پر ان کو تخت اسلام آباد دیں گے پاکستان میں 75 سالہ تاریخ میں گھر بھیجے جانے والے حکمران کو دوبارہ نہیں لایا گیا شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا کر ان کاخواب شرمندہ تعبیر کر دیا گیا ہے اب اگلی باری مونس الہی مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی ہے ۔ یہ طبل جنگ بج چکا ہے آصف علی زرداری کا ’ ’ اک زرداری سب پر بھاری ‘‘ کا نعرہ اب تک تو کامیاب ہے ۔وہ بلاول کو وزیر خارجہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب خود صدر بننے کے لیے مولانا فضل الرحمن سے سودے بازی میں لگے ہوئے ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ ہو رہا ہے اور ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدواروں بلاول بھٹو زرداری، چوہدری مونس الہی اور مریم نواز پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنی اپنی مہم کا آغاز کر چکے ہیں اس طرح آئند ہ ہونے والے الیکشن امریکہ کے یاروں اور آزاد خارجہ پالیسی کے نعرے لگانے والوں کے درمیان ہو گا اور جو کبھی جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں لگاتی تھیں وہ اب جمہور کی زیادہ طاقت سے لگے گا لیکن الیکشن رزلٹ امریکہ کے یاروں کے حق میں ہی ہو گا اور پھر پاکستان کی سڑکوں پر عمران خا ن ہونگے۔ جب تک الیکشن فری اور فیئر نہیںہوتے اور ووٹنگ کے بعد پولنگ ایجنٹوں کو ووٹنگ کے بعد گنتی کے وقت نکال دیا جاتارہے گا اور عدالتیں رات بارہ تک لگتی رہیں گی ملک میں جمہوری وزیر اعظم نہیں آ سکتا۔ یہی بچہ سقہ کا نظام جاری رہے گا، باریاں لینے والے مریم نواز ،مونس الہی، بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز وزیر اعظم بنتے رہیں گے اور عوام ووٹ ڈال کر بھی زخم چاٹتے رہ جائیں گے۔ اسطرح مقدر کے غازی عوام غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے ۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد رمضان شریف میں عوام کو آٹا چینی اور گھی یوٹیلٹی سٹور پر سستا کرنے کے نوٹیفکیشن خوش آیند تھے لیکن سپلائی پوری نہ ہو سکی عید کے دنوں میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ رہا لیکن اب پھر بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے جبکہ حکومتی وزراء شہباز شریف کی صفات بیان کرتے نہیں تھکتے ۔ عمران خان آپ نے غلطیاں نہ کی ہوتیں تو نہ حکومت جاتی اور نہ اتحادی جاتے ۔آپ نے تو کبھی اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں ہی نہیں لیا تھا کسی بیرونی دورہ میں بھی ساتھ لے کر نہ گئے شہباز شریف نے سبق سیکھا اور سعودی عرب سب کو ساتھ لے کر گے جبکہ ان کا استقبال مدینہ منورہ میں بھی چور چور کے نعروں سے ہوا جو کہ وہاں نہیںہونا چا ہیئے تھا اور اب امید کی جا ر ہی ہے کہ پنجاب میں بھی جلد کابینہ حلف اٹھا لے گی اور حمزہ شہباز اپنی والدہ سے قطر میں ملاقات کر کے واپس آچکے ہوں گے شہباز گل تو امریکہ کا چکر لگا کر واپس آگئے ہیں اور اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کروا لیں گے۔