امیر طبقے کے بچے ڈاکٹر بننے لگے‘ ذہین ترین طلبہ مایوس

ملتان(توقیر بخاری سے) ایم بی بی ایس میں داخلہ لیکر ڈاکٹر بننے کا خواب رکھنے والے لائق ترین پاکستانی طالب علموں کو انٹری ٹیسٹ میں ناکامی کے بعداپنا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا جس سے وہ ہی نہیں انکے والدین بھی بدترین ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلہ کی کڑی شرط پر پورا نہ اترنے والے جب انٹری ٹیسٹ میں نمبر نہیں لے سکتے تو ایف ایس سی اور میٹرک کے زیادہ نمبر بھی انکے کام نہیں آتے۔البتہ امراء  اور مالی طور آسودہ والدین اپنے بچوں کوپرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلہ دلوا کر اپنے اور بچوں کے خواب بھی پورے کرتے ہیں۔جس سے ملک میں پیسے کی تقسیم سے پیدا ہونے والی غیر مساوی اور امتیازی لکیر گہری ہوتی جارہی ہے۔ان حالات میں بہت سے طالب علم روس اور چین کے سستے میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کی کوشش کرررہے ہوتے ہیں جو پاکستان کے انتہائی مہنگے نجی میڈیکل کالجوں سے انتہائی سستے واقع ہوتے ہیں۔ملک میں ایم بی بی ایس میں داخلہ سے محروم ہونے والوں کو بیرون ملک میڈیکل کالجوں میں داخلہ کی ترغیبات دینے والوں کا  نیا کاروبار جم چکا ہے جو پاکستان کے ناقابل فہم اور پیچیدہ نظام تعلیم سے پیدا ہونے والی بے چینی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اس حوالے سے سب سے زیادہ سستا ترین ایم بی بی ایس کرنے کے لئے چین سب سے فیورٹ ملک قرار دیا جارہا ہے۔چین میں ایم بی بی ایس کا داخلہ دلوانے والے ایڈوائزرز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نجی میڈیکل کالجوں میں پانچ سال سے چھ سال کے دوران اگر ساٹھ لاکھ روپے تک خرچ ہوتے ہیں تو چین کے معیاری میڈیکل کالجوں میں پانچ سال تک تعلیم مکمل کرنے اور ایک سال کی انٹرن شپ تک بائیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ چین سے ایم بی بی ایس کرنے والے کی ڈگری پوری دنیا میں قابل قبول ہے۔انکے کے مطابق اب چین میں بھی انگریزی زبان میں ایم بی بی ایس کیا جاسکتا ہے جبکہ کچھ میڈیکل کالجوں میں پہلے چائینز زبان سیکھنا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ایم بی بی ایس میں داخلہ کے لئے کم از کم میرٹ ساٹھ فیصد اور عمر سترہ سال سے چوبیس سال تک ہوسکتی ہے۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اس پہلو پر لازماً سوچنا ہوگا کہ میڈیکل تعلیم کو انڈسٹری بنا کر ناقص انٹری ٹیسٹ کا مطالبہ نئی نسل کے خواب کچل ڈالے گا تو ملک کا مستقبل اپنے ملک کو کیسے سنوارے گا۔میڈیکل کالجوں میں سیٹیں بڑھا کر اور نجی میڈیکل کالجوں کی اجارہ داری کم کرکے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کے ساتھ ساتھ اپنی ہونہار نسل کو بھی بچایا جاسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن