میں نے زندگی میں بہت بار عجلت میں فیصلے کر کے ندامت اٹھائی۔ایسے ہی نہیں کہا گیا کہ سوچ کر اٹھاؤ قدم، قسم اور قلم ۔ہم بنا سوچے سمجھے جب کچھ کہہ جاتے ہیں بعد میں ہمیں اپنے ہی کیے پر پچھتاوا ہوتا ہے اس پچھتاوے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے مزاج کو پرجوش رکھیں لیکن ہوش میں
۔ میں خاموش رہ کر بہت غور کرتی ہوںاور پھر اسے اپنے قلم کی زباں بنا کر تحریر کرتی ہوں۔ ہم جب دوسروں کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہم انھیں ویسا ہی دیکھتے ہیں جیسا ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ محسوسات کسی حد تک وقت کی مناسبت سے درست بھی ہوتے ہیں لیکن جب کسی کے کہنے پر بول یا اسی کے کہنے پر لکھ دیں تو مروت میں مارے جاتے ہیں۔ حقیقت کھلنے پر سب بے نقاب ہو جاتا ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ اوہو یہ تو ویسا ہے ہی نہیں جیسا ہم کہہ گئے۔ایک دو ملاقاتوں میںہم پہچان نہیں سکتے کچھ وقت گزرنے کے بعد اصلیت کھلتی ہے۔ کسی پر ایکدم بھروسہ نہ کریں خود کو مضبوط بنائیں بس ٹھیک ہے مناسب تعریف بہتر ہے بجائے تعریفوں کے پل باندھنے کے۔ انسان خطاکار ہے اس سے خطا ہو جاتی ہے خاص اس وقت جب وہ دوسروں کو اپنے جیسا مخلص سمجھ رہا ہوتا ہے یا خود کو بہت اچھا پیش کر رہا ہوتا ہے ۔انسان کا پتا تب چلتا ہے جب وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے پھر وہ اچھلنے لگتا ہے ایسا وہ کرتے ہیں جو ہلکے ہوتے ہیں۔ایسا کوئی بھی ہو سکتا ہے وہ سیاسی شخصیت، اعلی عہدیدار،، فلمسٹار، گلوکار، شاعر و ادیب وغیرہ الغرض کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والا وہ شخص جو شہرت و دولت کی بلندیوں کو چھو چکا ہے یا نام بنا چکا ہے پھر چاہے کوئی بھی مذہب ہو کیسا ہی وہ شخص ہو بس مشہور ہو تو بس یہ ہلکے لوگ ان کے ساتھ تصویر بنا کر بار بار اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں دکھاوا ہی دکھاوا کبھی کسی کو پیسے سے خرید کر ایسا کرتے ہیں کبھی جھوٹ سچ بول کر کہ ہم یہ ہیں ہم وہ ہیں وغیرہ آپ سب بہتر جانتے ہیں کہ بات کہاں کی جا رہی ہے ۔
سیدھی راہ کیا ہے ہم سب اس سے ناواقف ہوگئے ہیں ہمیں جھوٹی شان و شوکت نے جکڑ رکھا ہے آجکل کام نہیں دیکھا جاتا تصویر دیکھی جاتی ہے تو بس پھر یہی چل رہا ہے ۔کسی فلمسٹار یاکسی سیاسی شخصیت کے ساتھ تصویر بنا کر اپنی ہی نمائش کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ویسے کچھ لوگ اپنی دولت ،مرتبہ، عہدہ، اثر و رسوخ کی بنا پر کچھ بن بھی جائیں تو بھی انسان نہیں بن سکتے کیونکہ وہ ظاہری چمک دمک میں کھو چکے ہیں ۔ایسے لوگ ان پر خلوص لوگوں کے حسن سلوک کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں چاہے انہی پر خلوص لوگوں نے ان کی ذات پر وہ کچھ کہہ دیا ہو جس کے وہ اہل بھی نہیں ہوتے ۔تبھی تو وہ اس عزت کو ہضم نہیں کر پاتے۔ جو جھوٹے اور عارضی عہدے پر براجمان ہوں حسد اور منافقت کی آگ انھیں سکون نہیں لینے دیتی ۔حسد و منافقت کا عالم یہاں تک ہے کہ اس عہدیدار کی ویڈیو اور تصویر بھی سامنے نہیں لاتے جس میں اس شخصیت نے اس دوسرے شخص کی جائز تعریف کردی ہو جس سے انھیں جلن ہوتی ہے مرد و زن دونوں ہی اس آگ میں جل رہے ہیں جو اندر ہی اندر بھسم کر رہی ہوتی ہے۔یہ المیہ بھی خوب دیکھا گیا اپنی تعریف میں لوگوں سے جھوٹ لکھوانے والے اپنی اس حرکت سے خود کو بہت چھوٹا بنا لیتے ہے ۔
تعریف صرف اللہ کی ہے۔انسان کے کام کو سراہنا اسکے اخلاق و کردار کی تعریف کرنا اچھا ہے لیکن، یہاں ہمیں یہ سمجھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ کہیں زندگی کی کتاب کے کچھ اوراق پلٹے اور اصل حقائق عیاں ہو گئے تو کیا ہوگا جس کے بارے میں ہم بہت کچھ کہہ گئے وہ ایسا نہ ہوا تو۔۔۔۔ یااللہ اس تو سے بچانا ۔راقمہ بھی انسان ہے اور شائد جذباتی بھی لوگوں کے فریب کو دیکھ نہیں پاتی۔بہرحال اب میں ایسے جھوٹی شان و شوکت والے لوگوں کو پہچان گئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ تو ہلکے ہیں بہت "ہلکے لوگ"۔