تھیلا سیمیا اذیت ناک موروثی عارضہ

May 07, 2022

 تھیلاسیمیا ایک اذیت ناک موروثی بیماری  ۔۔۔۔  صرف احتیاط سے نجات ممکن

محمد شہباز اکمل
تھیلا سیمیا کا عا لمی دن ہر سال 8 مئی کو منایا جاتاہے ۔ اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد تھیلا سیمیا کے حوالے سے آگاہی دینا ہے تاکہ اس مرض کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی روک تھام کی جاسکے اور جو بچے اس مرض کے ساتھ دنیا میں آچکے ہیں انکے علاج معالجے کے حوالے سے اعلیٰ حکام اور عوام کو آگاہی دی جائے تاکہ ایسے مریضوں کو مسلسل خون اور ادویہ کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے ۔ تھیلاسیمیا ایک انتہائی اذیت ناک موروثی بیماری ہے جس میں اعلیٰ اور معیار ی خون ناکافی مقدار میں بنتا ہے اور مریض کاجسم خون کے صحت مند سرخ خلیے بنانے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے ۔ ایسے مریض عمر بھر کے لئے خون کے سر خ خلیات کے حوالہ سے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آئرن کی مقدار کو کنٹرول کرنے اور دیگر جسمانی نقائص سے بچنے کیلئے مسلسل ادویہ کے استعمال پر مجبور ہوتے ہیں۔ مسلسل خون لگوانے سے جسم میں آئرن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کو کنٹرول کرنے اور دیگر جسمانی نقائص سے بچنے کیلئے یہ مریض ساری زندگی ادویہ کے استعمال پر مجبور ہوتے ہیں ۔تھیلاسیمیا کے ایک مریض کے علاج معالجے پر سالانہ لاکھوں روپے خرچہ آتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک عام صحت مند انسان کی طرح زندگی نہیں جی سکتے۔ ایسی زندگی والدین کیلئے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔
 پاکستان کی آبادی میں 6 فیصد ایسے افراد موجود ہیں جو کہ تھیلاسیمیا کے کیرئیر ہیں ۔ ایسے افراد بالکل نارمل زندگی گزارتے ہیں ۔ لیکن اگر دوایسے افراد کی شادی ہوجائے جو کہ دونوں کیرئیر ہوں تو اگلی نسل میں تھیلاسیمیا میجر کا بچہ پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ایسے جوڑوں میں 25 فیصد صحت مند‘ 25 فیصد تھیلاسیمیا میجر اور 50 فیصد بچے تھیلاسیمیا مائنر کے ساتھ پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس بیماری سے بچائوکا واحد حل یہ ہے کہ شادی سے پہلے تھیلاسیمیا کا ٹیسٹ ضرور کرایا جائے تاکہ ہراگلی نسل کو اس سے بچانا ممکن ہو۔ 
اپنا اور اپنے بچوں کے خون کا ایک سادہ ٹیسٹ Hb Electropharesis ضرور کروایا جائے ۔ متعد د یورپی ملکو ں میں شادی سے پہلے مذکورہ ٹیسٹ معمول کی بات ہے ۔ اسی طرح سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، ایران ، ترکی ، انڈونشیا ، ملائشیا ، سنگا پور اور تھائی لینڈ وغیرہ میں بھی شادی سے پہلے تھیلا سیمیا کی سکریننگ لازمی ہے۔پاکستان میں 2012 میں پنجاب اسمبلی شادی سے پہلے تھیلا سیمیا سکریننگ لازمی قرار دینے کی منظوری دے چکی ہے ۔جبکہ اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے  پاکستان میں ہر سال پانچ سے چھ ہزار بچے تھیلاسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔شادی کیلئے لڑکی یا لڑکے میں سے کسی ایک کا نان کیریئر ہونا ضروری ہے۔ اگر میاں بیوی دونوں کیرئیر ہیں تو تھیلاسیمیا کے بچوں کی پیدائش روکنے کیلئے حمل کے دوران CVS ٹیسٹ کرکے پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ ہونے والا بچہ تھیلا سیمیا میجر کے مرض میں مبتلا تو نہیں ۔ CVS ٹیسٹ حاملہ خاتو ن کے PLACENTA کے نمونے کے ذریعے کیا جاتاہے ۔ ٹیسٹ کیلئے الٹراسائونڈ کی مدد سے پیٹ کی جلد کے راستے پیدا ہونے والے بچے کے Placenta کا سیمپل ایک سوئی کے ذریعے لیا جاتاہے۔ ٹیسٹ سے قبل جلد کو سن کرلیا جاتاہے ۔یہ ٹیسٹ حمل کے  11 ہفتے بعد کرانا ضروری ہے۔ اگر ٹیسٹ کے بعد یہ ثابت ہوجائے کہ ہونے والا بچہ تھیلا سیمیا کا مریض ہوگا تو والدین اس بات کا انتخاب کرسکتے ہیں کہ وہ یا تو ایسے بچے کو عمر بھر خون لگوائیں یا اس حمل کو طبی طریقے سے ضائع کروادیں ۔ واضح رہے مولانا تقی عثمانی اور دیگر علما ء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ تھیلاسیمیا جیسے موذی مرض کی صورت میں 17 ہفتے سے قبل اسقاط حمل شرعا ً جائز ہے ۔
پاکستان میں ایک عرصے تک تھیلاسیمیا کے مریضوں کیلئے کوئی اداراہ نہیں تھا ایسے بچے اپنی پیدا ئش کے چند ماہ بعد ہی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر انتقال کرجاتے تھے ۔ 1978 ء میں ناظم جیوا نے فاطمید فائونڈیشن کے نام سے خاص طور پر تھیلا سیمیا کے مریضوںکے لئے باقاعدہ طور پر پاکستان میں پہلے ادارے کی بنیاد رکھی ۔ اس وقت پاکستان بھر میں فاطمید فائونڈیشن کے 10 سینٹر ز تھیلاسیمیا کے مریضوںکو خون کے اجزاء جدید ترین مشینوںپر ٹیسٹو ں کے بعد مفت فراہم کررہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ رجسٹر ڈ مریضوں کیلئے تمام ادویہ کی فراہمی بھی مفت ہے ۔ فاطمید فائو نڈیشن کا یہ اعزاز ہے کہ آج کئی ایسے رجسٹر ڈ مریض موجود ہیںجو 40 سے 48 سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ۔ اس وقت اگرچہ بہت سے دیگر ادارے بھی تھیلاسیمیا کے مریضوں کیلئے کام کررہے ہیں لیکن 40 سال کی عمر کوپہنچنے والے بعض مریضو ں کا کہنا ہے کہ انکی زندگی فاطمید فائونڈیشن کے مرہون منت ہے ۔ کیونکہ اگر انہیں جدید مشینوں پر ٹیسٹ شدہ خون اور ادویہ باقاعدگی سے نہ ملتیں تو وہ شائد اتنی لمبی زندگی کبھی نا جی سکتے ۔ دوسری طرف فاطمید فائونڈیشن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ سارا کریڈٹ پاکستانی قوم کو جاتاہے جس کے نوجوان اپنے خون سے تھیلاسیمیا کے مریضوں کی زندگیوں کے چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں اور سلام ہے ان مخیر حضرات کو جو اپنے زکوۃ خیرات اور صدقات کے ذریعے تھیلاسیمیاکے مستحق مریضوں کو ادویہ کی فراہمی جاری رکھتے ہیں۔ اس کارخیر میںخون کا عطیہ،فیریٹین کی مقدار کم کرنے والی ادویات اور مالی عطیات بھجوا کرہم بھی انسانیت کیلئے کردار اداکرسکتے ہیں۔ 
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

مزیدخبریں