حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com
محترم مجیب الرحمان شامی نے گرامی ذی وقار خواجہ محبوب الہی کو خراج تحسین اور عقیدت کے گلاب پیش کرتے ہوئے درست کہا کہ پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے خواجہ مرحوم کی ملی' فکری ' تبلیغی ' تدریسی ' سماجی' معاشرتی ، فلاحی اور اصلاحی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ خدمت انسانیہ' فروغ دین' دو قومی نظریے کے ترجمان اور فکر اسلامی کاررواں کے اہم ترین رکن حکیم سرورسہارنپوری کے ہم عصر اور ممتاز صحافی سید سعود ساحر کے دیرینہ دوست 82 سالہ خواجہ محبوب الہی یکم مئی (سوموار ) کوآخری سانسیں لے کر زندگی اور دنیا سے منہ موڑ گئے۔ وہ مسجد قبائ پشاور روڈ کے احاطہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ مظفر آباد' پشاور' گلگت وبلتستان اور راولپنڈی/ اسلام آباد کی ممتاز شخصیات کی طرف سے طاہر جمال' خواجہ کمال اور خواجہ حسن بلال سے ان کے والد گرامی کی رحلت پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کاکہنا تھا کہ( راقم کے والد محترم) حکیم سروسہانپوری اور خواجہ محبوب الہی نے قدم سے قدم ملا کر جس طرح تبلیغ اور اصلاح معاشرہ کے ساتھ خدمت انسانیہ کا چراغ روشن رکھا ان خدمات کا اظہار کے لیے الفاظ میں مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہیں۔
یادش بخیر… جب والدگرامی نے 1995ء میں جماعت اسلامی کی اس وقت کی قیادت سے اختلاف کرتے ہوئے راستے جدا کئے تو خواجہ محبوب الہی بھی تبلیغ واصلاح اور خدمت خلق کے مشن کے لیے ہم رکاب ہوگئے اورپھر مرتے دم تک تحریک اسلامی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد فروغ دین اور اہل وطن کی خدمت میں سرگرم رہے۔ تحریک اسلامی ضلع راولپنڈی کی امارت کے فرائض انہوں نے جس احسن انداز اور قابل رشک طریقے سے انجام دیئے شاید کوئی دوسری شخصیت وہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرسکے۔ خواجہ صاحب تحریک اسلامی کے مرکزی قیم (سیکرٹری مالیات) تھے، انہوں نے حکیم سروسہانپوری کی ہدایات اور خواہش پر تحریک اسلامی شعبہ خدمت کا چراغ روشن کیا۔ خدمت خلق کے فلاحی پروگراموں کو وسعت دینے کیلئے انہوں نے اپنے صاحب زادوں کے ساتھ مجھے اورہمارے برادر اکبر کو چنا پھر ہم ان کے ساتھ اور ان کی سرپرستی میں خدمت انسانیہ کے سلسلے دراز ہوتے رہے!! خواجہ صاحب اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے بالکل ابتدائی زمانے کے رفقا میں سے تھے اور غالباً 1950ء ہی میں مشرقی پاکستان چلے گئے' جہاں ان کے نانا محمد امین نے ''امین جیوٹ مل'' قائم کی۔ محبوب صاحب نے ڈھاکہ کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں ایک ایک فرد کو تلاش کرکے اسلامی جمعیت طلبہ قائم کی اور 1951ء میں مشرقی پاکستان اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کے ناظم کی حیثیت سے لاہور میں منعقد چوتھے سالانہ اجتماع میں شرکت کی۔ پھر بہت کوشش کرکے تنظیمی ذمہ داریاں مقامی بنگالی رفقائ کے سپرد کیں جن میں سید محمد علی کو مشرقی پاکستان جمعیت کا ناظم مقرر کیا اور کچھ عرصہ بعد ڈھاکہ جمعیت کا ناظم قربان علی کو بنایا۔ یہ خواجہ صاحب کی مردم شناسی اور کارکن سازی میں برکت تھی کی اس زمانے میں وہ ڈھاکہ میں سید محمد علی' عبدالجبار ' شاہ عبدالحنان ( بعد میں اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر) اور فیاض الدین (امپیکٹ انٹرنیشنل' اسلامی فاؤنڈیشن لیسسٹر) جیسے مثالی کارکنوں کو نظم جمعیت میں لانے اور مستقبل میں تحریک اسلامی کو ایک دانش ور اور عملی قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بنے اس ضمن میں جمعیت کی دعوتی اور تنظیمی کوششوں کے لیے اکیلے ہی جملہ مالی ومسائل فراہم کرنے کیلیئے صف اول میں کھڑے رہے۔1955-56ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کے بعد اعلی تعلیم کی غرض سے لندن اسکول آف اکنامکس (LES) میں داخلہ لیا اور گریجویشن کی۔ پھر لندن ہی سے چارٹرڈ اکاؤنٹیسنی (سی اے) کا امتحان پاس کیا۔
1971ء میں عوامی لیگ کے بغاوت کے دوران شرپسندوں جیوٹ مل لوٹ لی اور خواجہ صاحب بہت مشکل حالات میں واپس مغربی پاکستان آئے۔ یہاں بھی ابتداء میں فیملی کے صنعتی اور کاروباری اداروں بطور معاشی مشیرذمہ داریاں ادا کیں۔ پھر نیلم گلاس اور لیز جیلاٹین (کالا شاہ کاکو) پراجیکٹ کو چلایا۔پاکستان بننے کے چند ہی سال بعد جن پانچ چھ نوجوانوں کو مولانا مودودی نے شفقت سے نوازا خواجہ صاحب ان میں شامل تھے۔ خواجہ صاحب کو سعادت حاصل ہوئی کہ انہوں نے مولانا مودودی کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور اپنی والدہ کو حج کرانے میں خدمت گزاری کی۔
حکیم سرورسہانپوری اور خواجہ محبوب الہی کی دوستی وقربت ماشاء اللہ تیسری نسل میں منتقل ہوچکی ہے۔ دونوں خاندانوں محبت ' مودت ' اخوت احساس اور رواداری کی ایسی ریشمی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں جس پر انسباط اور اعزاز کے کئی مینار تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ خواجہ محبوب الہی کی کامیاب اور قابل اعجاز زندگی کے پس پردہ ان کی اہلیہ محترمہ ( سلمیٰ یاسمین نجمی) کا بڑا اور مرکزی کردار ہے۔ انہوں نے جس طرح اپنے مجازی خدا کے مشن میں ان کا ساتھ دیا ایسی مثال سماج میں خال خال دیکھی جاتی ہیں۔ اللہ پاک آپا محترمہ کو صبر' اجر اور انعام سے نوازے' خواجہ صاحب کی اگلی زندگی اور منزلیں آسان کرے اورانکے بچوں کو اپنے والدین کے لیے دعاؤں کا مستقبل ذریعہ بنائے ' آمین