ہر ادارہ عوام کو جوابدہ ہے

 یہ غیر دانشمندانہ سوچ ہے کہ اگر کوئی ادارہ ملک کے انتظامی معاملات میں مداخلت کرے گا توحکومت کو غیر مستحکم کر کے فارغ کیا جا سکتا ہے ، ایسی سطحی سوچ اور منفی رویے نے عہدِ رفتہ میں اور عصرِ حاضر میں حکومتوں کے ساتھ ملک کو بھی غیر مستحکم کیا ، جس سے ملک میں افراتفری پیدا ہوئی مہنگائی بڑھی، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مالیاتی نظام بحران کا شکار ہوا اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ، اب پاکستان کے عوام اپنی  بقاء کیلئے در بدر ہیں ، مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے ، لوگ اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں ، ملک کے اذیت ناک اورکربناک حالات کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے ماں باپ اپنے لختِ جگر اور معصوم بچوں کو زہر دے کر چھریوں سے گلا کاٹ کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں ۔
اداروں میں فرعون بنے افراد اپنی اناء کی تسکین چاہتے ہیں چاہے ملک تباہ ہو جائے ، پچھلی حکومت کی اناء اور ضد نے ملکی معیشت تباہ وبرباد کی اور اخلاقیات کی کمر میں بد اخلاقی اور بد کلامی کا ایسا چھرا گھونپا ہے کہ یہ زخم صدیوں نہیں بھرے گا، اب عوام ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بد بو دار بدکلامی اور بد اخلاقی کے سیلاب میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ہر سو منفی رویے دیکھے جا سکتے ہیں ، غیر سیاسی افراد کا ٹولہ بظاہر جمہوریت اور سیاست کی بات کرتا نظر آتا ہے لیکن رویے منفی، غیر سیاسی اور جمہوریت کی نفی کرتے ہیں ۔
1965 ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں مشروط صدارتی الیکشن منعقد کروا کر جمہوریت کے منافی روایات کی ابتدا کی، جن میں ووٹ کا حق صرف بلدیاتی اداروں کے ممبران کو حاصل تھا ، ان ممبران کی کل تعداد 80  ہزارتھی، ان میں سے 40  ہزارمغربی پاکستان اور 40 ہزار مشرقی پاکستان سے تھے ، جنرل ایوب خان کے مدِ مقابل مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں ، جنہیں غیر مناسب طریقے سے ہرا کر ایوب خان صدر بن بیٹھے ، اگر یہ انتخابات ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر ہوتے تو محترمہ فاطمہ جناح واضح اکثریت سے جیت جاتیں، جو کہ صدارتی نظام کی مخالف اور پارلیمانی نظام کی حامی تھیں۔
جنرل ضیاء الحق عوامی حکومت کو تہہ تیغ کر کے نوے دن میں اقتدار کی عوام کو منتقلی کا وعدہ کر کے ماشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور پھر دو مرتبہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے منسوخ کیا ، جنرل ضیاء کے مطابق وہ ایسا انتخابی ماحول چاہتے تھے جس میں مثبت نتائج حاصل کئے جاسکیں اور منتخب نمائندوں کا قبلہ بھی درست ہو ، یہی کچھ آج ملک میں نادیدہ قوتیں کر رہی ہیں ،  لہٰذا جنرل ضیاء نے 1979 ء میں غیر جماعتی انتخابات کروا کر ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی،اور غیر جماعتی پارلیمنٹ کے متبادل کے طور پر مجلسِ شوریٰ بنا کر اسے قانون سازی کے اختیارات سے محروم کر دیا ،جب کہ مجلسِ شوریٰ کے ارکان کا انتخاب بہت  محتاط طریقے سے چھان بین کر کے کیا گیا تھا  جنرل ضیاء نے اپنے غیر آئینی مارشل لاء اورخود کو مسقبل کا جائز صدر ثابت کرنے کیلئے دسمبر 1984 ء میں ریفرنڈم منعقد کروایا اور عام افراد کو ابہام میں مبتلا کر کے غیر واضح سوال پوچھ کر حزبِ اختلاف  کے اتحاد ایم آر ڈی کی مخالفت اور بائیکاٹ کے باوجود پانچ سال کیلئے ملک کے صدر بن کر پارلیمنٹ سے آٹھویں ترمیم کے ذریعے مارشل لاء کے تمام احکامات کو جائز کروالیا اس کے علاوہ 58/ 2-B کے تحت اسمبلی اور حکومت کو ختم کرنے کے صوابدیدی اختیارات بھی حاصل کر لئے ۔ 
جنرل پرویز مشرف بھی اپنے سینیئر سے چار قدم آگے نکلے انہوں نے سیاست دانوں میںایسی دوریاں پیدا کیں کہ ان کا خلاء آج تک برقرار ہے ، 1999 ء میں سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کے مارشل لاء کی توثیق کرتے ہوئے تین سال تک حکومت کرنے اور آئین میں ترمیم کا بھی حق دے دیا تھا ، ماضی کی روایات کو آج بھی برقرار رکھنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں ، جس کا چیف جسٹس عمر بندیال نے ملک بھر سے ایک ساتھ انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا جس سے نقصان ہوا ، عدالتی اصلاحات کے قانون 2023 ء کی درخواستوں کی سماعت کے دوران  چیف جسٹس نے  ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر ادارہ سپریم کورٹ کو جوابدہ ہے ، جب کہ جمہوریت میں ہر ادارہ عوام کو جوابدہ ہے ، اور عوام کی نمائندگی پارلیمنٹ میں بھیجے ہوئے نمائندے کر رہے ہیں یہ نمائندے عوام کی آواز ہیں ان کو کسی نظریہ ضرورت  کے تحت لا کر زیر کرنے کا زمانہ بیت گیا ، اب راج کرے گی خلقِ خدا ۔
 ممتاز عالمِ دین مفتی منیب الرحمن نے برملا چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ سے گزارش کی ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کو خدارا سبوتاز نہ کریں دور اندیشی کا ثبوت دیجئے، اسے آوازِ خلق سمجھا جائے ۔
 آج ملک میں جاری الیکشن تنازع اور آئینی بحران خود ساختہ ہے، اسے اناء کا مسئلہ صرف اور صرف اس لئے بنایا گیا ہے کہ مخصوص افراد اورمن پسند پارٹی کے لئے سہولت کاری فراہم کرنا ہے ، جیسا کہ ماضی  میں ہوا ، لیکن اب ایسا ممکن نا ہوگا ، عوام انصاف چاہتے ہی نہیں بلکہ انصاف مانگتے بھی ہیں۔، تاریخ ِماضی ہے کہ منصبوںنے آمروں کے حق میں فیصلے دے کر عوام کا استحصال کیاآئین کی شکل کو بگاڑنے میں مدد فراہم کی ، اب عوام حساب لینے کے لئے شفاف انصاف چاہتے ہیں، کسی مند پسند فرد یا پارٹی کے لئے نہیں بلکہ ملک کیلئے ورنہ، 
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا 

ای پیپر دی نیشن