لیڈر شپ ویژن کا نام ہے۔ رہنما راستہ دکھانے والے ہوتے ہیں وہ حال نہیں مستقبل کا سوچتے ہیں۔ وہ سطحی معاملات میں الجھ کر وقت ضائع کرنے کی بجائے اصولوں پر مبنی عوامی مفاد کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ وہ پوری قوم کو اپنے بچے سمجھ کر ان کی خیر خواہی چاہتے ہیں۔ ہم جب اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں منظر نامہ پر ایسے لوگ نظر آتے ہیں جن کو اپنے پیٹ سے آگے کچھ نظر نہیں آتا اور اپنی اولاد سے آگے کوئی رہنما نہیں ملتا۔ ان کی ساری سیاست مفادات سے شروع ہو کر مفادات پر ختم ہو جاتی ہے۔ سیاسی ورکرز تو ناپید ہو چکا سیاسی جماعتیں بھی خاندانوں کی لمیٹڈ کمپنیاں دکھائی دیتی ہیں۔ سیاست پاکستان میں اس وجہ سے گالی بن چکی ہے کہ سیاست کا اول اور آخراقتدار کا حصول اور بےاصولی ہمارا مطمع نظر ہے۔ لیکن تمام تر سیاسی انتظامی اور زور جبر کے باعث پاکستانی معاشرہ میں بیزاری عروج پر پہنچ چکی ہے۔ لوگ دھونس دھاندلی اورزبردستی کے مسلط کردہ فیصلوں سے تنگ آچکے ہیں۔
سیاسی لوگ اس بیزاری کو محسوس بھی کر رہے ہیں لیکن وہ کولہو کے بیل بنے رہنا چاہتے ہیں کیونکہ اسی میں انکی بلے بلے ہے۔ ان تمام تر حالات میں ایک ایسی سیاسی جماعت بھی موجود ہے جس نے عوامی بیزاری کو بہت زیادہ محسوس کیا ہے اور وہ ہے جماعت اسلامی۔ اسکے ممبران نے حکمت اور دانش کا ثبوت دیتے ہوئے اور جمہوری روایات کے عین مطابق ایک ایسے شخص کو اپنا امیر منتخب کیا ہے جو دور حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھ عوامی خدمت کی سیاست کو فوکس کیے ہوئے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے منصورہ میں کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں کے اعزاز میں ضیافت دی جس میں دو اڑھائی گھنٹے کھل کر گفتگو ہوئی۔ جماعت اسلامی کی سیاست اور آئیندہ کے کردار کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔ مستقبل کی سیاست میں جماعت اسلامی کا کردار بڑا اہم ہو گا یہ میری پشین گوئی ہے کیونکہ جماعت اسلامی نے ایشوز کی سیاست اور عوام کامقدمہ لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جماعت اسلامی پبلک ایشوز پر عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ ویسے تو یہ دن حکومت اور امیر جماعت اسلامی کے ہنی مون کے ہیں لیکن امیر جماعت اسلامی وقت ضائع کیے بغیر میدان میں کود پڑے ہیں۔ سیاسی محاذ پر انھوں نے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارنے اور عوام کے ووٹ کی توہین کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ فارم 45 پر انتخابی نتائج پر عوامی فیصلہ قبول کرنے کی تحریک چلانا چاہ رہے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے انتخابات میں جو بڑا کام کیا ہے وہ ملک بھر کے فارم 45 کا ریکارڈ اکٹھا کرنے کا ہے۔
تحریک انصاف اور انکے آزاد امیدواروں کو تو انتظامیہ نے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا نہ ہی ان کے پولنگ ایجنٹ اتنے تربیت یافتہ تھے لیکن جماعت اسلامی نے انتہائی ہنر مندی کے ساتھ سارا ڈیٹا اکٹھا کر کے محفوظ کر لیا ہے بلکہ حسب ضرورت عدالتوں میں کیس لڑنے کے لیے کئی امیدواروں کو تفصیلات فراہم کرکے ان کی مدد بھی کی ہے۔ جو فارم 45 اور 47 کے ذریعے باریک کام کیا گیا ہے اس کے سارے دستاویزی ثبوت صرف اور صرف جماعت اسلامی کے پاس موجود ہیں لہذا عدالتی جنگ اور عوامی جدوجہد کی جو تحریک شروع ہو رہی ہے جماعت اسلامی دونوں محاذوں پر ثبوت کے ساتھ آئے گی۔ حافظ نعیم الرحمن نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ وہ اب مشترکات اور ایشوز کی سیاست کریں گے۔ انھوں نے آج کے دور کے سب سے اہم ایشو گندم کی خریداری کے حوالے سے کسانوں کے ساتھ زیادتی کو ٹیک اپ کر لیا ہے۔ پنجاب میں 50 سے زائد مقامات پر جماعت اسلامی نے کسانوں کی حمایت میں مظاہرے کیے ہیں اور اس حوالے سے جماعت اسلامی پہلی سیاسی جماعت ہے جو عملی طور پر کسانوں کے ساتھ میدان میں اتر چکی ہے اور یقینی طور پر یہ بہت بڑا ایشو ہے۔ اس پر حکومت کو مجبور ہوکر کچھ نہ کچھ کرنا پڑےگا۔ حافظ نعیم الرحمن نے بتایا کہ وہ جماعت اسلامی کی بنیادی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہے لیکن بہت ساری چیزوں میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ انھوں نے ایک کالم نگار کی خواہش پر کہا کہ ہر کوئی جب چاہے جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کر سکتا ہے۔ جماعت اسلامی عوامی جماعت ہے۔ انھوں نے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار، سیاسی سماجی اور معاشی حالات کا بھی ذکر کیا انھوں نے بین الاقوامی حالات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کون ہے جو پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک ایران افغانستان اور چین سے لڑوانا چاہ رہا ہے اور انڈیا سے دوستی کروانا چاہتا ہے، جماعت اسلامی نہ صرف فلسطین کے مسلمانوں بلکہ مقبوضہ کشمیر پر بھی عوامی رائے کی ترجمانی کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے تھنک ٹینک ہر ایشو پر حقائق کے مطابق قیادت کو آگاہی فراہم کرتے ہیں جماعت اسلامی کی مجلس شوری کا اجلاس اگلے ماہ پھر ہونے جا رہا ہے جس میں اہم فیصلوں کے بعد جماعت اسلامی کا ایک متحرک کردار دیکھنے کو ملے گا۔
٭....٭....٭