ڈاکٹرعارفہ صبح خان
کتنا بڑا اعزاز ہے کہ پاکستانی نژاد صادق خان تیسری مرتبہ لندن کے لارڈ مئیربن گئے۔ لندن کا لارڈ مئیر بننا پاکستان کے ”وفاقی وزیر“ سے بڑا عہدہ ہے۔ برطانیہ نے بر صغیر پر تقریباً ڈھائی صدی راج کیا ہے۔ یہی گورے مسلمانوں کو پاکی، خاکی اور کالے کہا کرتے تھے۔ ہندﺅں کے مقابلے میں مسلمانوں کو گاﺅدی سمجھتے تھے۔ انہوں نے بر صغیر میں مسلمانوں کو کمتر بلکہ بد تر درجہ دے رکھا تھا لیکن آج اُسی برطانیہ پر برصغیر والوں کا راج ہے۔ بھارتی نژاد رشی سونک برطانیہ کا وزیر اعظم ہے جبکہ لندن جسے خوابوں اور خزانوں کی سرزمین سمجھا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ با شعور طبقہ اور اہلِ دانش کا راج ہے جہاں آنجہانی ملکہءبرطانیہ کا بنکھگم پیلس ہے۔ اُسی لندن پر پاکستانی نژاد صاد ق خان کا حکم چلتا ہے۔ صادق خان نے لندن لارڈ میئر شپ کی ہیٹ ٹرک مکمل کر لی ہے۔ صادق خان 8 اکتوبر 1970ءکو ایک غریب گھر میں پیدا ہو ئے۔ صادق خان اپنے بچپن کی غربت اور جوانی کے ایام کی محنت اور جدوجہد پر اکثر بات کرتے ہیں اور اپنا ماضی بتاتے شرماتے نہیں۔ میری لندن کے لارڈ مئیر صادق خان سے پہلی ملاقات گورنر ہاﺅس میں ہوئی جب اُنکی کتاب کی زبردست تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔ ہال کچھا کھچ بھرا ہو ا تھا۔ سچ مچ تلِ دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ گورنر پنجاب صدارت کر رہے تھے۔ لوگ ٹو ٹے پڑے تھے اور صادق خان ایک دولہا کی طرح ہر طرف سے داد و تحسین وصول کر رہے تھے۔ تقریب کے بعد وہ ہم سب سے نہایت محبت سے ملے۔ صادق خان میں سادگی اور سچا ئی تھی۔ خوش مزاجی اور خوش گفتاری تھی۔ دیکھنے میں وہ ایک نارمل سے آدمی تھے لیکن انسان کی عجز و انکساری، خوش طبعی اورملنساری، رکھ رکھاﺅ اُسے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ جتنی دیر ہم نے صادق خان سے گفتگو کی۔ وہ ایک بذلہ سنج،نکتہ رس اورعلم و ادب سے آراستہ انسان نکلے۔ اُن میں غرور تکبر اکڑ نام کو نہیں تھی۔ میں نے کہا کہ بالکل نہیں لگ رہا کہ آپ سے پہلی ملاقات ہے۔ اتنی اپنائیت اور تواضع کا پیکر تھے۔ اللہ اُسی کو نوازتا ہے جس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ اُسی کو عزت دیتا ہے جو عزت کے لائق ہو تا ہے ۔ اُسی میں محبتیں انڈلیتا ہے جو لوگوں میں محبتیں بانٹتا ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر جاتے ہیں۔ اکثر لوگ دنیا میں صرف کھانے کمانے اور افزائش نسل کے لیے آتے ہیں اور ستر اسیّ سال کی عمر میں گمنامی کی موت مر جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں صادق خان جیسے ہیرے بھی ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں اُنھیں موا قع نہیں ملتے۔ اسی سر زمین پر لاکھوں ایسے لوگ ہیں جنھیں قدرت نے بے پناہ صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ جن کے دماغ اس قدر ذرخیز ہیں کہ اگر انھیں موقع دیا جائے تو وہ پاکستان کو سپُر پاور بنا دیں۔ پاکستان میں ایسے ایسے نایاب انسان ہیں جو پاکستان کی کایا پلٹ دیں۔ ہر شعبہءحیات میں انتہائی قیمتی، ذہین اور جوہر قابل موجود ہیں لیکن ہماراسیاسی نظامِ حکومت ایسا ہے جو قابل اور ہیرے موتی جیسے نادر لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتا۔ ہمارے ہاں حکومتوں کا یہی چلن ہے کہ شا ہانہ نظام ہے۔ باپ کے بعد بیٹا بیٹی بھائی بھتیجا آگے لایا جاتا ہے۔ چلیں حکومت سازی میں بیٹی بیٹے حصہ لے لیں لیکن اس وسیع و عریض ملک کے 25 کروڑ عوام میں آپکے پاس 25لاکھ ایسے نابغہءروزگار افراد ہیں جو آپکی حکومت اور ملکی حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔حکومت کو ترقی کی نئی منزلوں تک لیجا سکتے ہیں جو آئی ایم ایف سے نجات دلا سکتے ہیں۔ جو کشکول کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو قرضوں، امدادوں، چندوں، صدقات، خیرات اور بھیک سے نجات دلا سکتے ہیں۔ پاکستان کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے کے لیے ذہانت اور محنت کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ہاں اُوپر سے نیچے تک صرف چاپلوسی، پی آر شپ، سازش، سفارش چلتی ہے۔ جو جتنا مکھن لگاتا ہے۔ جتنی خو شامد کرتا ہے اور جتنا آگے پیچھے پھرتا ہے۔ اُسی کو ہماری حکومتیں عہدے اور مواقع دیتی ہیں لیکن جو شخص اپنی انا ، خودداری، غیرت حمیت یا میرٹ پر ہو تا ہے۔ اُسے پس منظر میں دکھیل دیا جاتا ہے۔ اس ملک کو برباد کرنے میں چا پلوس، خو شامدیوں، اقربا پروروں، سا زشیوں، ابن الوقتوں، منافقوں، ہڈ حراموں اور کرپٹ ترین عناصر کا سار ا حصہ ہے۔ ایک ذرخیز، ہر ے بھرے ، معدنیات اور وسائل سے بھرپور ملک کو بھکاری کرپٹ افراد نے بنایا ہے۔ ہمارے ہاں کبھی ذہانت اور قا بلیت کو نہیں سراہا گیا۔ ہمیشہ دو نمبر لوگوں اور، دو نمبر کاموں کو پزیرائی ملی ہے۔ کبھی سا ئنسی علمی ادبی تعلیمی سرگرمیوں کی حو صلہ افزائی نہیں کی گئی۔ پاکستان کے ہیرو زیادہ تر کرپٹ سیاستدان ہیں۔ اسکے بعد کھلاڑی اور اداکار ہیں۔ کر کٹرز ہر جگہ سے ہار کر آجاتے ہیں۔ کروڑوں نہیں اربوں روپیہ انکے ناز نخروں، تنخواہوں مراعات ، عنایات اور شکست حاصل کرنے پر دیا جاتا ہے۔ اُن پر کروڑوں کے کمرشل بنائے جاتے ہیں۔ اُنھیں ہر چینل پر تزک و احتشام سے بُلایا جاتا ہے۔ انھیں ضرورت سے زیادہ پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ ہر مرتبہ، ہر ملک اورہر سیریز میں ہار کر آنے والے کرکٹرز قوم کے ہیرو ہیں۔ اُسکے بعد شو بز کے لوگ ہیں جو اس وقت کروڑوں روپیہ کما رہے ہیں۔ ہر تقریب ہر چینل اور ہر موقع پر ےہی قوم کے ہیرو ہیرﺅینیں ہیں۔ ہر جگہ انکی آﺅ بھگت کی جاتی ہے۔ شا ہانہ پروٹوکول ملتے ہیں اور ہر سال ایوارڈز کی تقا ریب بلکہ قومی دنوں پر بھی اداکاروں کو درجنوں کے حساب سے ایوارڈز دئیے جاتے ہیں۔ گویا علم و ادب، سا ئنس، تعلیم، انجینئرز ڈا کٹرز دانشور صحا فی ادیب شا عر پائلٹ وغیرہ یعنی زندگی کے وہ شعئبہ حیات جن سے ملک کو ترقی ملتی ہے۔ عزت اور مقام ملتا ہے۔ اُن لوگوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک ایک عالم ادیب دانشور سا ئنسدان مو جد، تخلیق کار، کسان، استاد، انجینئر کا کوئی مقام مرتبہ نہیںہے۔ بس اب لے دے کر آئی ٹی کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ ا س ملک میں سماجی خدمات انجام دینے والے کتنے لوگ ہیں۔ کیا کسی نے اُنکا ہاتھ پکڑا ہے۔ کسی نے خا موشی سے انسانیت کی رات دن خدمت کرنے والوں کو سراہا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں کو ئی اعلیٰ تعلیمیا فتہ اور شعور بانٹنے والا وزیر بنا ہے؟ اس ملک میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے جو پاکستان کی کایا پلٹ سکتا ہے لیکن کو ئی ٹیلنٹیڈ لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتا۔ ہمارے ملک میں صرف جہالت، منافقت، خبا ثت، خو شامد اقربا پروری ترقی کے ذریعے ہیں۔ بیرون ملک جاکر یہی لوگ اپنا لوہا منواتے ہیں۔اپنی پہچان بناتے ہیں۔ ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ با ہر جا کر وہ عزت دولت شہرت کماتے ہیں کیونکہ انھیں موا قع ملتے ہیں۔ اُنکے کام اور علم کی قدر کی جاتی ہے۔ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے کے با وجود بڑے بڑے عہدوں تک رسائی پاتے ہیں۔ صادق خان عزت و محبت، شہرت و دولت کا ایک استعارہ ہے بلکہ ایک جگمگاتا ستارہ ہے۔ ایسے کئی ستارے پاکستان کی خاک میں رُل رہے ہیں۔ اس ملک کے عظیم اورقابل قدر لوگ مٹی میں ملائے جارہے ہیں۔ پتہ نہیں میں بھی کیوں بھینس کے آگے بین بجا رہی ہوں۔۔۔۔۔؟