بلا امتیاز.... امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
4 مئی کو اس بطل حریت کا یوم شہادت خاموشی سے گزر گیا جس نے آزادی‘ خودمختاری اور قومی سلامی کو نئے الفاظ‘ نئی جہت اور نیا انداز عطا کیا۔ ٹیپو سلطان شہید کا مسلمانوں پر احسان ہے اور ہماری نسلیں اس مرد مومن اور مرد جری کا قرض اتارتی رہیں گی۔ حیرت ہے، حسرت ہے، دکھ ہے اور قلق بھی ہے کہ گلگت وبلتستان‘ آزاد کشمیر اور اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے کئی کونے میں بھی شہید ٹیپو سلطان کی یاد میں قابل ذکر تقریب نہ ہوسکی!شاعر مشرق نے شائد ایسے ہی دل خراش اور روح شکن لمحات کیلئے کہا تھا
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
لاہور کے میوزیم میں رکھے نوادرات میں والئی میسور حیدر علی کے صاحب زادے ٹیپو سلطان کے زیر استعمال وہ با جا بھی دیکھا گیا جیسے بجایا جائے تو شیر کی ڈھاڑ نکلتی ہے، اسی باجے میں شیر کو انگریز کی گردان دبوچتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹیپو سلطان کی زندگی کے ہر انداز میں آزادی اور خودمختاری کی خوشبو موجود ہے ۔ افسوس مسلم لیڈر شپ اور مسلمان قوم نے اپنے قومی ہیرو (ٹیپو سلطان )سے کچھ نہیں سیکھا۔ یہ وہی ٹیپو سلطان ہے جس کی گرجدار آواز اور حکمت عملی سے سامراج کانپتا تھا، اسی شیر میسور نے کہا تھا” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدرکی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“ ہم 225 ویں یوم شہادت پر ٹیپو سلطان کی عظمت ،شوکت اور حشمت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں !! دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک حضرت اقبالؒ کے اس ہیرو کی بہادری اور دلیری کی جھلک سوئی ہوئی مسلم لیڈر میں بھی منتقل کردے۔
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگے ملت ،ننگے دین ،ننگے وطن
حضرت اقبالؒ نے بتایا کہ جنہم نے اللہ تعالی سے عرض کی کہ مولائے کائنات میرے اندر گندے سے گندا اور گنہگار سے گنہگار فرد کو ڈال دینا مگر میر جعفر اور میر صادق کو مجھ سے دور رکھنا، یہ دونوں اپنی قوم کے مجرم اور غدار ہیں ان کے غلیظ کردار سے مسلمان قوم اپنی آزادی ، خودمختاری اور سلامتی کھو بیٹھی....تاریخ میں مورخّین نے کسی بھی جنگجو سلطان اور بادشاہ سے اتنے زیادتی نہیں کی،جتنی ٹیپو سلطان سے ہوئی۔ ٹیپو سلطان پر تو ڈاکٹر محمود منگلوری ایک واحد شخصیت ہیں جنہوں نے بڑا کام کر رکھا ہے۔ تاہم ان کے کام کا بھی زیادہ تر کہ انحصار انگریزی کتب پر ہے۔ 1799 ئمیں سکوتِ سرنگا پٹم کے بعد انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے خلاف استعمال ہونے والے اپنے مضبوط قلعے فورٹ ولیم میں ٹیپو سلطان کا تمام اثاثہ لا کر جمع کیا۔ 4 مئی 1900ءکو سکوت سرنگا پٹن کی پہلی سالگرہ کے طور پر ، فورٹ ولیم کو انگریزوں نے برصغیر میں اپنے پہلے کالج کا درجہ دیا۔ جس میں ٹیپو سلطان کے ذاتی کتب خانے یادداشتوں اور خواب ناموں کے ہمراہ دو ہزار کتب تھیں۔ان کتب کی تفصیل انگریز فوجی افسر میجرسٹووارڈ نے اپنی کتاب میں درج کر رکھی ہے اور وہ کتب آج بھی برٹش انڈیا لائبریری لندن میں موجود ہیں۔ ٹیپو سلطان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ انگریزوں نے اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھا۔ اور ہم میں سے اکثر نے بچپن میں کتوں کا نام ٹیپو سن رکھا ہے۔ٹیپو سلطان شہید میزائل ٹیکنالوجی کا باپ تھا۔ آج بھی امریکی خلائی ادارے ناسا کی راہداریاں اس بات کی گواہی ہیں۔ ڈاکٹر بی ۔شیخ علی استاد تاریخ ، یونیورسٹی آف میسور نے ٹیپو سلطان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے، بڑی اہم تحقیق سامنے لائی،جس میں اس وقت بھی اسلامی امّہ کے اتحاد کے حوالے سے سوالات کھڑے کر دئے۔ حیدر علی کے مقابلے میں ٹیپو سلطان کی سفارتی پالیسی بڑی نمایاں تھی۔ تا ہم لیڈن ہال سٹریٹ( ایسٹ انڈیا مرکزی دفتر ) کی سازشیں اور مسلمان حکمرانوں کی نام نہاد مصلحت ریاست خداداد کے لیے مشکلات ہی پیدا کرتی رہی۔ٹیپو سلطان نے مغربی استعمار کے مقابلے کے لیے جب ہم وطنوں سے مدد مانگی تو ان کی تنگ نظری اور خود غرضی نے اس کی تدبیر کو ناکام بنایا۔اسی اصول پر جب سلطان نے بر صغیر سے باہر اسلامی حکومتوں کو احساس دلایا کہ مغربی استعمار کی بڑھتی ہوئی طاقت کس قدر خطرناک ہے۔ دفاعی نکتہ نگاہ سے تو اس کے کوئی خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہوئے تاہم اس کے نتیجے میں بیرونی تجارت اور صنعت میں زبردست ترقی ہوئی ، ٹیپو سلطان ریاست میّسور سے باہر 30 کے قریب کارخانے لگانے میں کامیاب ہوا۔بیرونی تجارت اور صنعت میں زبردست ترقی ہوئی۔میسور کے تجارتی جہاز چین، برما،مسقط، آرمینیا جدہ آرموز ، مصر اور سعودی عرب حتی کہ فرانس تک بھی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔سلطان نے عنانِ امورِ حکومتِ میسّور اپنے والد حیدر علی کی وفات کے بعد 1782 میں سنبھالا۔سلطان نے اپنی ریاست کو ریاست خداداد کا نام دیا۔ 1784ئ میں ترک سلطان عبدالحمّید کو لکھا کہ سلطنت تیموریہ کے کمزور ہو جانے کے باعث نصاریٰ نے ہندوستان کے بعض ساحلی علاقوں پر تجارت کے بہانے قبضہ کر لیا ہے ۔سلطان نے پیشکش کی ،کہ جو ترک فوجیں میسور پہنچیں گی ان کا تمام خرچ ریاست میسور کی ذمہ داری ہو گئی۔ سلطان عبدالحمید جب چاہیں اپنی فوج واپس بلا سکیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بنگال سے انگریزوں کو اس وقت 35 کروڑ روپیہ سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔ترکی حکومت نے ٹیپو سے معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ جس طرح ہندوستان کے لیے انگریزی تسلط کا خطرہ تھا، اسی طرح روسی استعمار ترکوں کے لیے خطرناک تھا۔ ٹیپو سلطان نے فرانسیسیوں سے دوستانہ تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ انگریزوں کی دشمنی نے میسور اور فرانس کو ایک رشتے میں منسلک کر دیا تھا۔ ٹیپو کے سفرائ کا شاہ فرانس نے بہت گرم جوشی سے استقبال کیا، اس استقبال کے لیے خود بادشاہ نے اپنے قالین بھیجے تھے۔ _3 اگست 1788 کو ان سفیروں کی شاہ فرانس سے ملاقات ہوئی، تا ہم اس ملاقات کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا چونکہ فرانس اس وقت انقلاب عظیم کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ فرانس کی اقتصادی اور معاشرتی زندگی میں انتشار نمایاں تھا۔ٹیپو سلطان کے انقلاب فرانس کی مصلح جدوجہد کرنے والی تنظیم جیکوبن کلب کے ساتھ بھی اچھے دوستانہ تعلق تھے۔لیکن وہ خود اندرونی خلفشار میں مبتلا تھے۔ٹیپو سلطان ایران سے بھی اشتراک عمل کی کوشش کی۔ 1797ء میں ایران کا شہزادہ اپنے باپ سے لڑ کر سرنگا پٹم آ گیا۔ یہاں ٹیپو نے اسے خوش آمدید کہا، اور اپنے پاس رکھا۔ جاتے وقت اس نے شہزادے سے کہا " اپنے دارالسلطنت کے معاملات طے کرنے کے بعد میری خواہش ہے کہ تم میرے اور زمان شاہ کے ساتھ مل کر ہندوستان اور دکن کے مسائل حل کرو " شہزادہ اس کے لیے راضی ہو گیا۔ ٹیپو نے خود شاہ ایران کے پاس اپنے ایک قاصد کے کے ذریعے یہ تجویز بھیجی کہ سلطان کی یہ خواہش تھی کہ تجارت کا قدیم خشکی کا راستہ جو ایران سے ہو کر یورپ تک جاتا ہے وہ اس سے دوبارہ جاری کرے۔ لیکن اس کی مدت حکومت اس قدر مختصر تھی کہ وہ اس منصوبے کو عملی شکل نہ دے سکا۔ٹیپو سلطان کی سلطنت خداداد اور ریاست میسور کے پڑوسی نظام حیدراباد اور مرہٹے انگریزوں سے مل کر ریاست میسور کے خاتمے کے در پر تھے۔ لیکن نظام کی طرح مرہٹوں سے بھی ٹیپو نے دوستانہ روابط قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہ بدستور انگریزوں کی ٹیپو سے ہونے والی لڑائیوں میں انگریزوں کا ساتھ دیتے رہے۔ 1787 میں سلطان نے مرہٹوں کو شکست دی۔ بعد ازاں دوستی کی غرض سے نہ صرف پیسہ دیا بلکہ قلعے بھی دیے۔ مگر مرہٹوں پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ انہوں نے جنگ میں لارڈ کارنوالس کا ساتھ بھی دیا۔ مرہٹوں کے حکمران و پیشواء بابا فرنویس کو اخر تک یہ اندازہ نہ ہوا کہ ان کا اصل دشمن ٹیپو نہیں بلکہ انگریز ہیں۔ لیکن ٹیپو کی شہادت کے بعد اسے صحیح نقشہ نظر آیا۔ اس نے جب کہا " ٹیپو ختم ہو گیا، انگریزوں کی قوت برابر بڑھ رہی ہے
ٹیپو کی خارجہ پالیسی کے بارے میں خود انگریز گورنر جنرل لارڈ ولزولی کہ تاثرات پڑھنے کے قابل ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس کا سربراہ اسماعیل ہانیہ آج کا ٹیپو سلطان ہے۔ اسے بھی ٹیپو شہید کی طرح کی پڑوسی ممالک اور مسلم ممالک سے سفارت کاری کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہیں۔